Jan ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۷:۴۰ Asia/Tehran
  • حکومت فرانس کی ایمیگریشن پالیسیوں پر سوشلسٹ پارٹی کی تنقید

فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار اور فرانس میں 2017 کے صدارتی انتخابات میں اس پارٹی کے نامزد امیدوار بینوا ہامون Benoît Hamon نے، اس ملک کی حکومت پر مہاجروں اور پناہ گزینوں کے خلاف سرکوبی کی پالیسیاں اختیار کئےجانے کا الزام عائد کیا ہے-

بینوا ہامون نے موجودہ حکومت کے سیکریٹری جنرل " کریسٹوف کاسٹانر" کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسیاں کئی عشروں سے فرانس میں لاگو نہیں کی گئی تھیں- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ فرانس کی حکومت ، اس ملک کے صدر امانوئل میکرون کی سربراہی میں ، فرانس میں تارکین وطن کو قبول کرنے کے نظام میں بعض بنیادی اصلاحات انجام دینے کے ساتھ ہی فرانس کے معاشرے سے پناہ گزینوں کو ضم کرنے کا بڑا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں وہ تارکین وطن کو قبول کرنے کے نظام میں تبدیلی لانے کے درپے ہے۔

فرانس کی حکمراں جماعت ری پبلک آن دی موو کے سیکریٹری جنرل نے دعوی کیا ہے کہ اس ملک کی اعتدال پسند حکومت  پناہ گزینوں کو ضم کرنے کے حوالے سے مشکلات کو حل کرسکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں اس حساس مسئلے کا مقابلہ کرنے اور اسے موجودہ صورتحال سے نکالنے کی ہمت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ سن دوہزار دس سے اب تک ، فرانس میں رہائش کے لئے کی جانے والی درخواستوں میں اسّی فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان تارکین وطن کو قبول کرنے کی شرائط اور درخواستوں کی شرح اور دوسری جانب پناہ گزینوں کی تعداد میں کوئی تناسب نہیں پایا جاتا۔ 

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ میکرون کی حکومت ری پبلک آن دی موو، سنجیدہ طور پر تارکین وطن کو رہائش دینے کی صورتحال کو تبدیل کردے گی۔ اس سلسلے میں رہائش دینے کے قانون کی اصلاح کے بل کا مسودہ پیش کیا گیا ہے کہ جس پر بڑے پیمانے پر اعتراضات کئے گئے ہیں، جس سے فرانس میں تارکین وطن کو قبول کرنے کے سسٹم میں ہوشیاری اور توجہ کے ساتھ اصلاح کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔ نئے ایمیگیریشن قوانین اور پالیسیوں کا حتمی نتیجہ، مسلمہ طور پر پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے خلاف دباؤ میں اضافے اور ان کو قبول کرنے کے لئے غیرمعمولی سخت رویے اور فرانس سے بہت سوں کو نکالے جانے کی کوشش کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ 

 فرانس میں موجود مہاجرین کے گرد معاشی گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ سڑکوں اور دیگر مقامات سے مہاجرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے، تاہم ساتھ ہی ان کی شناخت اور قانونی حیثیت کے تعین کا عمل بھی جاری ہے۔ فرانس کے صدر امانوئیل میکرون نے ملک بھر میں تارکین وطن کو سڑکوں، جنگلات اور کھلے علاقوں سے ہٹا کر باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں بسانے کے لیے گذشتہ سال کے آخر تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام مقررہ وقت تک مکمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے علاقائی حکومتیں اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

فرانسیسی صدر نے جولائی 2017 میں  اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ انہیں اس سال کے آخر تک فرانس کی سڑکوں اور جنگلات سے مہاجرین کا صفایا چاہیے۔ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کردہ رہائشی عمارتوں کے بندوبست کے ل‏‏ئے بھی کہا تھا، تاکہ ان میں مہاجرین کو بسایا جا سکے۔ بظاہر ان کا یہ اعلان یورپ کی سردی کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی بنیادوں پر کی جانے والی ایک کوشش دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت ذرا پیچیدہ ہے۔ میکرون واضح کر چکے ہیں کہ فرانس میں معاشی مقاصد کے لیے پہنچنے والے تارکین وطن کو جگہ نہیں دی جائے گی۔ وہ ان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے حق میں ہیں جن کا سیاسی پناہ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

جرمنی کی ڈریسڈن یونیورسٹی میں ایمیگیریشن کے امور کے ماہر " اولیورانگلی " پناہ گزینوں کے خلاف یورپی ملکوں کی سخت پالیسی کے بارے میں کہتے ہیں کہ حکومتوں کو ان کے ووٹروں سے خوف لاحق ہے- اصولی طورپر تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے ساتھ فرانس کا رویہ اچھا نہیں رہا ہے - فرانس کی پولیس نے کالہ شہر میں موجود پناہ گزینوں کے ساتھ تشدد آمیز رویہ اختیار کیا ہے اور اس شہر میں پناہ گزینوں کے بہت سے کیمپ خالی ہوگئے ہیں۔

یورپ کو 2015 سے پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا ہے یہ وہ پناہ گزیں ہیں جو مغربی ملکوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں بہت سے ملکوں میں دہشت گردی اور تشدد کو وجود میں لانے کےباعث اپنے ملک چھوڑ کر یورپی ملکوں کی جانب ہجرت کرگئے ہیں- اسلامی مسائل کے ماہر شریف آل سبایہ کے مطابق یورپ میں پناہ گزینوں کی مہاجرت میں اضافے کی وجہ، اس پر کنٹرول کرنے کے سلسلے میں یورپی ملکوں کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں ہیں-

 

        

ٹیگس