Jan ۰۵, ۲۰۱۸ ۱۹:۲۵ Asia/Tehran
  • ایران اور پاکستان کے وزرائے دفاع کے درمیان تبادلۂ خیال،علاقائی تعاون پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے پاکستان کے وزیر دفاع کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اپنی شکست اور ناکامیوں کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے کی عادت پڑ گئی ہے۔

ایران کے وزیر دفاع جنرل امیر حاتمی نے جمعرات کے روز پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان سے ٹیلیفونی گفتکو میں کہا  کہ امریکہ ، اسرائیلی اسٹریٹجی کے تحت خطے میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے حالات اور امت مسلمہ کی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ خطے اور عالم اسلام کے دو اہم ملکوں یعنی ایران اور پاکستان کے درمیان صلاح و مشورے کا سلسلہ جاری رہے۔ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ دفاعی اور فوجی لحاظ سے ایران اور پاکستان بے پناہ صلاحیتیوں کے مالک ہیں جنہیں دونوں ملکوں کے عوام کی معیشت اور سلامتی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے بھی اس موقع پر اسلام آباد اور تہران کے درمیان صلاح و مشورے کو ضروری قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے درمیان دفاعی تعاون اور اہم علاقائی معاملات پر دونوں ملکوں کے صلاح و مشورے کا عمل جاری رکھے جانے کا خیرمقدم کیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ خطے کی صورتحال کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ دہشت گردی علاقے کے ملکوں کے لئے ایک اہم چیلنج ہے ۔ افغانستان میں بدامنی کا مسئلہ، غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کا سبب بنا ہے اور یہی مسئلہ علاقے ، اور پڑوسی ملکوں کے درمیان ماضی سے زیادہ تعاون کو ضروری بنا دیتا ہے۔

اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران ، افغانستان و پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر امن و سلامتی کے مسئلے کی نسبت حساس رہا ہے اور ہمیشہ ان دونوں ملکوں کے حکام خاص طور پر پاکستانی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال انجام دیتا رہتا ہے۔ علاقے میں مغربی ملکوں خاص طور پر امریکہ کی موجودگی، بدامنی میں اضافے کا سبب بنی ہے اور ایسے حالات میں علاقے کے ملکوں منجملہ ایران و پاکستان کے درمیان تعاون کا فروغ ضروری ہے۔ افغانستان میں روزانہ ہونے والے دھماکے، علاقے میں دہشت گردوں کی آزادانہ سرگرمیاں اور آمد و رفت، اور افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ ہی منشیات کی بامقصد کاشت میں اضافے سے، علاقے میں بیرونی طاقتوں کی تخریبی سرگرمیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ایسے حالات میں امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسرے ملکوں کو قرار دے تاکہ دہشت گردی کے فروغ میں اپنے منفی کردار کی پردہ پوشی کرسکے۔ افغانستان میں داعش کے اثر و رسوخ کے ساتھ ہی اس ملک کی موجودہ اور اس سے قبل کی صورتحال اور شام میں داعش دہشت گردوں سے مقابلے میں امریکہ کی دوہرے معیار کی پالیسی نے سب پر یہ بات واضح کردی ہےکہ داعشیوں کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ صورتحال علاقے میں امریکہ کی شیطانی پالیسی کا صرف ایک نمونہ ہے اور اس سے اس کا مقصد اسلامی ملکوں کو نابود کرنے اور ان کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اگرچہ امریکہ کی یہ پالیسی شام اور عراق میں شکست کھا چکی ہے لیکن امریکی بدستور اپنے نئے منصوبوں اور پروپیگنڈوں میں مصروف ہیں اس لئے ان کے مقابلے میں ہوشیاری اہم ترین ضرورت ہے۔ علاقے اور پڑوسی ملکوں کے درمیان مسلسل تبادلۂ خیال ہی علاقے اور اسلامی ملکوں میں امن و سلامتی کی ضمانت کا واحد طریقہ کار ہے۔ اسلامی ملکوں کی صلاحیتوں اور گنجائشوں سے استفادہ ، بلاشبہ ان ملکوں کو مشکلات کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے میں مدد کرے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ امریکی، مسلم ملکوں کے درمیان اختلافات کو ہتھکنڈہ بناکر اپنے مذموم اہداف کو آگے بڑھائیں۔

تاریخی تجربے نے ثابت کردکھایا ہے کہ امریکی قابل اعتماد نہیں ہیں اور واشنگٹن اسلام آباد کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی بھی اسی حقیقت کی تائید ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو علاقائی صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت میں اضافہ کردیتے ہیں اور اسی سبب سے پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے ایران کے وزیر دفاع کے ساتھ ٹیلیفوںی گفتگو میں پاکستان اور ایران کے درمیان دفاعی تعاون اور اہم علاقائی معاملات پر دونوں ملکوں کے صلاح و مشورے کا عمل جاری رکھے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔     

   

ٹیگس