بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے فرقہ واریت اور فتنہ انگيزی پر مبنی اقدامات
بحرین کی عمل اسلامی تحریک کے نائب سیکرٹری جنرل ''شیخ عبداللہ صالح' نے کہا ہے کہ آل سعود، آل خلیفہ پر دباؤ ڈالنے کے ذریعے بحرین سے شیعوں کی نقل مکانی کے درپے ہے۔
بحرین کی عمل اسلامی تحریک کے نائب سیکرٹری جنرل "شیخ عبدالله صالح" کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے کہنے پر بحرینی حکام شیعوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کررہے ہیں۔ عمل اسلامی تحریک کے نائب سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ آل خلیفہ ، آل سعود کی خشنودی کے لئے اپنے ہی شہریوں کے خلاف من گھڑت اور جھوٹے مقدمات بنا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آل سعود بحرینی حکام کو شیعوں کے خلاف اکسا رہے ہیں اور آل خلیفہ ، آل سعود کی خشنودی کی خاطر اہل تشیع کے خلاف امتیازی سلوک کرکے ملک بدر ہونے پر مجبور کررہی ہے۔
بحرین کی وفائے اسلامی تحریک کے رکن شیخ صالح الباری نے بھی کچھ عرصہ قبل آل خلیفہ کے توسط سے اس ملک میں فتنہ انگیزی اور فرقہ واریت پر مبنی منصوبوں پر عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حکومت کو معلوم ہے کہ بحرین کا انقلاب جاری رہنے سے آل خلیفہ حکومت کمزور ہوجائے گی اور اس کی تباہی کو یقینی بنا دے گی اسی بناء پر آل سعود جس ہتھکنڈے اور سازش کے ذریعے فرقہ وارانہ پالیسیوں پرعمل کر رہی ہے وہ خود کو بچانے کے لئے ہے۔
آل خلیفہ اور آل سعود دونوں ہی استبدادی حکومتیں ہیں جو فرقہ واریت پر مبنی اپنے اقدامات کے ذریعے، ملک کی قوموں کے تمام حقوق پامال کر رہی ہیں۔ آل خلیفہ حکومت کے فرقہ وارانہ اقدامات اور اس حکومت کی شیعہ مخالف پالیسیاں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ بحرین میں آبادی کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بحرین میں گذشتہ دنوں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل خلیفہ کی اصل تشویش کا سبب، بحرین کے عوام کے مذہبی عقائد اور مطالبات ہیں جو اس ملک کے عوام کے فکری پشت پناہ کی حیثیت سے، استبداد کے خلاف قیام میں سرگرم عمل ہیں۔
یہی سبب ہے کہ بحرین کی حکومت اس ملک کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے اور شیعوں کو اقلیت میں قرار دینے کے مقصد سے بہت سے دیگر ملکوں کے باشندوں کو اپنے ملک میں لاکر بسا رہی ہے اور انہیں شہریت دے رہی ہے۔ بحرین کی حکومت نے ایک اور اقدام میں پاکستانی اور اردنی باشندوں کو ملازمت دینے کےعمل میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ آل خلیفہ حکومت اپنی جارحانہ فرقہ وارانہ پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے بحرینی شہریوں خاص طور پر شیعوں کی شہریت سلب کر رہی ہے۔ بحرین کا بیس فیصد سے زیادہ بجٹ کا حصہ اغیار کو شہریت دینے اور مذہبی و اجتماعی ڈھانچے کو تبدیل کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔
بحرین میں شہریت لینے والوں کی صحیح تعداد مخفی رکھے جانے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ غیر ملکی جنہوں نے اب تک بحرین میں شہریت حاصل کرلی ہے ان کی تعداد ملک کے اصلی باشندوں سے تقریبا بیس فیصد زیادہ ہے۔ بحرین کی ظالم و جابر حکومت اس ملک کے عوام کی تحریک کو سرکوب کرنے کے مقصد سے کوئی بھی ہتھکنڈہ ، سازش اور پالیسی اپنانے سے دریغ نہیں کرتی تاکہ ملک کے سیاسی و اجتماعی میدان سے مخالفین کا خاتمہ کردے۔
آل خلیفہ حکومت کے توسط سے بحرینی شہریوں کی شہریت سلب کرکے غیرملکیوں کو شہریت دینے کے سیاسی محرکات ہیں ۔ بحرین کی سرگرم عمل بعض سیاسی شخصیات نے منامہ حکومت کی اس پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب بھی منامہ کے اس اقدام کا حامی ہے ۔ بحرین کی آل خلیفہ حکومت، اس بات کا بے بنیاد دعوی کرتے ہوئے کہ بحران پیدا کرنے والے عوام صرف شیعہ مسلمان ہیں رائے عامہ میں بحرین کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی اپنی پالیسی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ جنوبی خلیج فارس کے تمام عرب ملکوں کے برخلاف، بحرین کی سّتر سے اّسی فیصد تک آبادی، شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ اس ملک میں گذشتہ چند عشروں کے دوران بحرین کے تمام اہم اور کلیدی عہدوں پر سّنی اقلیّتی مسلمانون کا قبضہ رہا ہے ۔
سنہ 1999 میں جب سے شیخ حمد، اپنے باپ شیخ عیسی بن سلمان آل خلیفہ کی جگہ برسراقتدار آئے ہیں شیعہ مسلمانوں کے حقوق کی پائمالی اور اس سے بھی بڑھکر یہ کہ بحرین کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی پالیسیوں کو بہت زیادہ تیزی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ بیشتر بحرینی جوان، بے روزگار ہیں جبکہ بہت سے ایسے بحرینی شہری بھی ہیں جو چالیس برسوں سے بحرین میں ہیں اور ان کے ماں باپ بھی بحرینی ہیں اور بحرین میں ہی انھوں نے شادی کی ہے مگر ابھی تک انھیں بحرین کی شہریت نہیں دی گئی ہے اور اعلی تعلیم کے باوجود ان کے پاس کوئی خاص ملازمت نہیں ہے صرف اس بناء پر کہ وہ شیعہ مسلمان ہیں۔
دریں اثنا اس انداز سے بحرین کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنے پر خود اس ملک کے اہلسنت مسلمانوں نے بھی تنقید کی ہے اس لئے کہ انکا خیال ہے کہ اس طرح سے دیگر ملکوں کے شہریوں کو بحرین میں بسانے سے اس ملک کا عربی تشّخص ختم ہوجائیگا اور بحرین کے شیعہ مسلمانوں کا بھی خیال ہے کہ غیر ملکیوں کو بحرین کی شہریت دینا ایک ایسی مشکوک کاروائی ہے کہ جس کی انجام دہی کیلئے مغرب کی جانب سے منامہ کو مجبور کیا گیا ہے اورجس کے نتیجے میں بحرینی عوام کو حکومت کے تشدّد اور سرکوبی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔