دنیا میں امریکہ کے الگ تھلگ ہونے کے بارے میں انتباہ
امریکی صدر کے گذشتہ چند دنوں کے ٹوئیٹر پیغامات نے، دنیا میں اس ملک کے الگ تھلگ ہوجانے کی بابت امریکیوں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔
اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دنیا کے حساس مسائل کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئیٹس اور بیہودہ گوئی اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکہ کو ایک کاغذی شیر سے تشبیہ دی جائے۔ امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے سربراہ ریچرڈ ہاس کہتے ہیں کہ امریکی صدر کی باتیں اہمیت رکھتی ہیں اسی سبب سے ٹرمپ کی بہت سی باتیں تشویشناک ہیں۔ ان کے ٹوئیٹر پیغامات کو بھی وائٹ ہاؤس کے دیگر بیانات کی طرح سنجیدگی سے لینا چاہئے جبکہ ٹرمپ جو باتیں ٹوئیٹ کے ذریعے بیان کر رہے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے عیسوی سال کے آغاز سے اب تک ایران، شمالی کوریا ، فلسطین اور پاکستان سے متعلق الگ الگ ٹوئیٹر پیغامات میں اپنے بیہودہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جانگ اون کو ٹوئیٹ کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے ایٹم بم کا بٹن تم سے زیادہ بڑا اور طاقتور ہے۔ یاد رہے کہ کم جونگ اون نے سال نو کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹم بم کا بٹن ہر وقت میرے میز پر ہوتا ہے،اور پورا امریکا شمالی کوریا کے نشانے پر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ان کے ایک ٹوئٹ کے ذریعے منظر عام پر آیا ہے جس میں شمالی کوریا کو سخت جواب دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں شمالی کوریا کے رہنما نے بیان دیا تھا کہ "میرا ہاتھ ہمہ وقت ایٹم بم کے بٹن پر ہے اور امریکہ کی معمولی سی غیرمحتاط حرکت پر یہ بٹن دبا دیا جائے گا" جس کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ "میرے پاس موجود ایٹم بم کا بٹن زیادہ بڑا اور طاقتور ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے پاکستان پر بھی دہشت گردی سے مقابلے میں دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان کے لئے امریکی امداد بند کردیں گے۔
اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کی ٹوئیٹر ڈیپلومیسی پر عالمی ردعمل نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ واشنگٹن ، دنیا کے بہت سے حساس مسائل میں تنہا پڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں حال ہی میں ہونے والے بلوؤں اور فسادات کے باعث، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کی مذمت کے لئے انجام پانے والی امریکہ کی کوشش ناکام رہ گئی اور اسے ایک بار پھر ذلت کا منھ دیکھنا پڑا ، جبکہ فلسطینیوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس کے بعد سے وہ امریکہ کواسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات میں ثالث کی حیثیت سے تسلیم نہیں کریں گے-
شمالی کوریا کے خلاف مہینوں کی لفظی جنگ کے بعد آخرکار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام کے معاملے پر شمالی کوریا کی حکومت سے براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ میں نیوز کانفرنس کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے معاملے پر وہ شمالی کوریا سے براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں ۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میں شمالی کوریا کے صدر کیم جونگ اون، سے بھی بات کرسکتا ہوں اور انہیں فون بھی کرسکتا ہوں-
بہرحال امریکی صدر امریکہ سمیت پوری دنیا کی نظر میں ایک منفور شخصیت ہیں اور امریکا کی سابق وزیرخارجہ اور سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کو امریکی تاریخ کا سب سے زیادہ خطرناک صدر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ اشتعال دلاتے ہیں اور خود بھی اپنے کنٹرول میں نہیں رہتے اور آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی ملکوں کی اہم شخصیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں اسی قسم کے الفاظ استعمال کئے تھے جبکہ شمالی کوریا کے صدر نے تو ٹرمپ کا ذہنی معائنہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب ٹرمپ کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں چنانچہ ٹرمپ کی نفسیاتی حالت کے بارے میں امریکی یونیورسٹی ییل(yale university) کےماہرین نفسیات نے خبردار کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ٹرمپ شدید نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہےجو امریکہ کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ‘‘امریکی ییل یونیورسٹی کے میڈیکل شعبے کی جانب سے امریکی صدر کی نفسیاتی حالت کے بارے میں ایک خصوصی کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ ’’ٹرمپ ایک شدید ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں اور نفسیاتی طور پر ان کی ڈسٹرپ حالت امریکی معاشرے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ‘‘ماہرین نفسیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ شک، فریب نظر اور وھم (illusion))جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں ۔ ٹرمپ کی نفسیاتی بیماری کے بارے میں یہ پہلی بار نہیں کہ ماہرین نفسیات کی جانب سے خبردار کیا جارہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ماہرین نے کہا تھا کہ ٹرمپ خطرناک خود پسندی کا شکار ہیں۔