جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات
جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے مذاکرات کار وفود کے دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پانمونجوم پر پہنچنے کے بعد منگل کی صبح سے دونوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
جنوبی کوریا اور شمالی کوریا دو سال کے دوران پہلی بار مذاکرات کر رہے ہیں جو چند پہلؤوں سے قابل غور ہے- پہلی بات تو یہ ہے کہ جنوبی کوریا میں سرمائی اولمپیکس کے کھیلوں میں اپنے کھلاڑیوں کی ٹیمیں بھیجنے کے پیونگ یانگ کے فیصلے نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے سیاسی وفود کی ملاقاتوں کی زمین ہموار کی ہے- دوسرے یہ کہ جنوبی کوریا کے صدر مون جائہ این نے انیس سو اٹھانوے سے دوہزار آٹھ کے برسوں میں کیم دائے جونگ کی روشن آفتاب نامی پالیسی پھر سے ایجنڈے میں شامل کرلی ہے- ان کے زمانے میں اس پالیسی کے تناظر میں سئول اور پیونگ یانگ کے درمیان نہایت اچھے سمجھوتے انجام پائے تھے جن میں کائہ سونگ صنعتی زون کے قیام کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے اس صنعتی زون کے قیام سے دونوں کوریاؤں کے منقسم خاندانوں کی ملاقاتوں نے دونوں کوریاؤں کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے میں موثرکردار ادا کیا تھا- لیکن گذشتہ دو برسوں کے دوران جنوبی کوریا کے سابق صدر پارک گئون ہائے نے امریکہ کا ساتھ دینے اور شمالی کوریا پر فوجی و سیاسی دباؤ ڈالنے کی جو پالیسی اختیار کی اس سے نہ صرف روشن آفتاب نامی پالیسیوں کے ثمرات و نتائج تباہ و برباد ہوگئے بلکہ فریقین فوجی تصادم کی حد تک آگے بڑھ گئے- اس حالت میں ماہرین نے بحران میں شدت آنے کے سلسلے میں بھی خبردار کیا ہے-
الیکسی ماسلوف روسی اکیڈمی میں چین سے متعلق اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ جزیرہ نمائے کوریا کے علاقے کے حالات نہایت خطرناک ہوگئے ہیں اور اگر شمالی کوریا پر امریکہ کے فوجی حملے شروع ہوئے اور پھر پیونگ یانگ کے جوابی حملوں پر جنوبی کوریا اور جاپان نے بھی حملے شروع کر دیے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے-
اگرچہ امریکہ نے بھی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان مذاکرات کا ایک طرح سے خیرمقدم کیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہرگز جزیرہ نمائے کوریا میں کشیدگی دور کرنا نہیں چاہتا کیونکہ علاقے میں امن و سکون قائم ہونے کی صورت میں شمالی کوریا اور چین کے اطراف کے بحری علاقوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا - اس کے باوجود جنوبی کوریا نے کہ جو اپنے لئے زیادہ خطرہ محسوس کررہا ہے ، ہمیشہ ہی بحران کے سیاسی حل کی کوشش کی ہے-
تہران میں جنوبی کوریا کے سفیر کیم سئونگ ہو کا کہنا ہے کہ جزیرہ نمائے کوریا میں ساٹھ برسوں سے زیادہ عرصے سے کشیدگی جاری ہے اور ہم اسی حالت میں ہیں اور ہمیں اس کی عادت پڑ چکی ہے ہم اب تک کشیدگی کو خاص سطح تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں تاکہ کشیدگی حقیقی تشدد پرمنتج نہ ہو اور ہم سفارتکاری کا سہارا لے رہے ہیں - سفارتکاری ، جنوبی کوریا کی بنیادی روش ہے اور وہ اسی پر باقی رہے گا -
بہرحال دونوں کوریاؤں کے وفود کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کے انعقاد نے سئول اور پیونگ یانگ کے لئے علاقے میں قیام امن کی اہمیت اور قومی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے قدم اٹھانے اور صبر و تحمل اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہم اور کارآمد معاہدوں کے انعقاد کا ماحول فراہم کیا ہے-