میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف برطانیہ کی پروپیگنڈہ پالیسی
برطانیہ کے وزیر خارجہ بوریس جانسن نے جمعہ نو فروری سے بنگلادیش، میانمار اور تھائیلینڈ کا دورہ شروع کیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اس دورے میں بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں کا معائنہ کیا۔ بنگلادیشی حکام کے ساتھ بوریس جانسن کے مذاکرات کا ایک اہم محور، روہنگیائی مسلمانوں کی افسوسناک صورتحال کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اپنے دورۂ بنگلادیش، میانمار اور تھائیلینڈ سے قبل ایک بیان میں کہا کہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مصائب و آلام ، عصر حاضر کا ایک المناک ترین انسانی المیہ ہیں۔ جانسن وہ پہلے اور آخری مغربی حکمراں نہیں ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں اظہار خیال اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران بہت سے مغربی حکام نے روہنگیا مسلمانوں کی افسوسناک صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے اورحتی بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کے کمیپوں کا بھی معائنہ کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے میانمار بھی گئے ہیں اور اس ملک کے حکام خاص طور پر امن نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے ملاقات کی ہے۔
برطانوی وزیرخارجہ بوریس جانسن نے بھی اپنے اس دورے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار میں مسلمان روہنگیا اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اس حوالے سے جاری بحران کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔ بوریس جانسن نے میانمار کے دورے میں سوچی سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ میانمار بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا پناہ گزینوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے ۔ راخین بحران کی آزادانہ تحقیقات کی اجازت دے۔ برطانوی وزیر خارجہ میانمار کی تشدد زدہ ریاست راخین کا بھی دورہ کریں گے۔ میانمار کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کھلے اور دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ برطانوی وزیر خارجہ کو ریاست راخین کی صورتحال اور نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔
لیکن یہ تشویش اور ملاقاتیں اور مذاکرات ، اب تک میانمار کے حکام کے ساتھ ملاقات میں روہنگیا مسلمانوں، کہ جو اقوام متحدہ کے حکام کے بقول دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہے، کی حالت کے بہتر ہونے میں ذرہ برابربھی مددگار ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ میانمار کی فوج نے گذشتہ ستمبر کے مہینے سے نسلی صفایا کرنے کے مقصد سے بہت سے روہنگیائی مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا ۔ سینکڑوں افراد کا قتل عام کیا اور ہزاروں لڑکیوں اور عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا میانمار کی فوج کے مسلسل مظالم اس بات کا باعث بنے کہ تقریبا سات لاکھ مسلمان میانمار سے بنگلادیش فرار کر گئے۔ اس انسانی المیے پر یورپی حکومتوں نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے میانمار کی حکومت سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کہی۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ میانمار کے حکام اور آنگ سان سوچی نے ڈھٹائی کے ساتھ ریاست راخین میں روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے اور ان کے قتل عام کو مسترد کیا ہے۔
ان تمام جرائم کے خلاف مغربی حکومتوں کا ردعمل محض زبانی جمع خرچ ہے۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ اپنے محدود سفارتی اقدامات کے ذریعے یہ ظاہر کریں کہ وہ مسلمانوں کی افسوسناک صورتحال سے بے توجہ نہیں ہیں لیکن عملی طور پر مسلمانوں کے نسلی صفائے کی پالیسی کے خاتمے کے لئے میانمار کے خلاف کوئی بھی سیاسی اور اقتصادی ہتھکنڈہ استعمال نہیں کر رہے ہیں