ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے یورپی یونین کا پہلا اقدام، یورپی یونین کے وفد کا دورہ تہران
ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کے نکل جانے کے اقدام سے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا یورپ، امریکہ کے مقابلے میں اور اپنی اقتصادی کمپنیوں کے فائدے میں استقامت کرے گا یا پھر واشنگٹن کے ساتھ وسیع پیمانے پر مشارکت، اس امر میں مانع بنے گی کہ یورپی یونین، قدیمی دوست کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے سے دوچار نہ ہونے دے-
ان سوالات میں سے بعض کا جواب، تہران میں یورپی یونین کے وفد کے مذاکرات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین نے ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے مقصد سے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے یورپی یونین کے کمشنر برائے توانائی، مائیگل ایریس کینیٹے Miguel Arias Canete کو تہران بھیجا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی جوہری توانائی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے ہفتے کے روز ایران کے دورے پر آئے ہوئے یورپی یونین کے توانائی کمشنر مائیگل ایریس کینیٹے کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے جوہری معاہدے سے نکل کر ایرانی قیادت کے اس مؤقف کی تصدیق کی ہے کہ وہ ہرگز قابل بھروسہ ملک نہیں ہے. صالحی نے کہا کہ یورپ نے ایران کے ساتھ پُرامن جوہری تعاون بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس مقصد کے لئے یورپ، ایران میں ایک اعلی درجے کا سیفٹی سینٹر قائم کرے گا جس پر یورپی فریق دو کروڑ ڈالر سرمایہ کاری بھی فراہم کرے گا.
ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے سنیچر کے روز یورپی یونین کے وفد کے ساتھ مذاکرات کے بعد کہا کہ اس وقت یورپی ممالک ایٹمی معاہدے کے تحفظ اور ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر تاکید کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یورپی یونین کا یہ ارادہ ، ایٹمی معاہدے میں ایران کے باقی رہنے کے لئے کافی ہوگا، اس کے لئے وقت درکار ہے-
ایران کے وزیر پٹرولیم بیژن نامدار زنگنہ نے بھی مائیگل ایریس کینیٹے کے ساتھ ملاقات کے بعد اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یورپی یونین کے وفد کے ساتھ مذاکرات میں ایران اور یورپ کے درمیان تیل، گیس ، پٹرولیم کی مصنوعات، اور گیس کنڈنسیٹ کے شعبے میں تبادلۂ خیال انجام پایا ہے کہا کہ ایران اور یورپی یونین توانائی کے شعبے میں اپنے تعلقات جاری رکھنے کے لئے اس راہ میں کوششیں انجام دیتے رہیں گے-
بلمبرگ اقتصادی نیوز نیٹ ورک نے ان مذاکرات کی سطح کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یورپی یونین، روس اور چین کے ذریعے ایٹمی معاہدے پر باقی رہنے کا فیصلہ، بے نتیجہ نہیں رہے گا- بلمبرگ کے نقطہ نگاہ سے یورپی ممالک کہ جنہیں اس وقت اسٹیل اور ایلومینم کی درآمدی ڈیوٹی کے مسئلے پر امریکہ سے اختلاف ہے، ان کے لئے یہ لازمی نہیں کہ وہ ایران کے سلسلے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کی پیروی کریں-
ایک نقطہ نگاہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے یورپ کی جانب سے واضح خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جو ٹرمپ کے لئے اچھا پیغام نہیں ہے- یورپی یونین نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں سے مقابلے کے لئے ڈیٹیرینٹ قوانین کا آغاز بھی کیا ہے-
اس کے علاوہ یورپی یونین یہ چاہتی ہے کہ یورپی کمپنیوں خاص طور پر چھوٹی اور متوسط کمپینیوں کو ایران میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے، یورپی انوسٹمنٹ بینک (ای آئی بی) کی جانب سے حمایت میں جو رکاوٹیں ہیں، ان کو برطرف کرے- یورپی یونین نے اسی طرح ایرانی فریق کے ساتھ اعتماد کی بحالی کی غرض سے ایران میں سرمایہ کاری خاص طور پر توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی تقویت کو اپنے ایجنڈے میں قرار دیا ہے-
اس کے باوجود بعض تجزیہ نگار ان وعدوں کے عملی ہونے میں شکوک وشبہات کا اظہار کر رہے ہیں- اب اگر یورپ ویسا ہی عمل کرتا ہے جیسا کہ اس نے سربراہی اجلاس میں ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے سلسلے میں کہا ہے، اور اپنے مواقف پر ڈٹا رہتا ہے تو پھر ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپی یونین پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، لیکن ابھی مکمل اعتماد حاصل کرنے میں بہت فاصلہ ہے-