Oct ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۶:۱۱ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف پابندیوں پرعملدرآمد ، امریکی وزیر خزانہ اور نتنیاہو کے مذاکرات کا محور

امریکی وزیر خزانہ کے دورۂ مقبوضہ فلسطین میں ان کے اقدامات اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر عملدرآمد کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ان کے تبادلۂ خیال نے امریکہ کے گوشہ نشیں ہونے کی علامتوں کو مزید آشکارہ کردیا ہے۔

امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچین نے اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات کے بعد کہا کہ اس ملاقات میں فریقین نے ایران کے خلاف پابندیوں پر عملدرآمد کے لئے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ تعاون جیسے مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے- ان پابندیوں کا دوسرا مرحلہ نومبر کے مہینے میں، ایران کے تیل کو صفرتک پہنچانے کے مقصد سے شروع ہوگا لیکن منوچین نے یہ اعتراف کیا ہے ان پابندیوں پر سو فیصد عملدرآمد ممکن نہیں ہے-

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیو منوچین نے ایران کے تیل کے مکمل بائیکاٹ پر مبنی اپنے ملک کے موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے ایران سے تیل کی خریداری کرنے والے ملکوں کو چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔انھوں نے چھوٹ دیئے جانے کے طریقہ کار کے بارے میں کہا کہ ایران سے تیل درآمد کرنے والے ملکوں کو دو ہزار تیرہ سے دو ہزار پندرہ کے برسوں کے مقابلے میں تیل کی خریداری میں بیس فیصد سے زائد کٹوتی کرنا ہو گی تاکہ وہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی چھوٹ سے فائدہ اٹھا سکیں-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، غیر ایٹمی مسائل میں مذاکرات پر ایران کو مجبور کرنے کے لئے، ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے اس معاہدے کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں- ٹرمپ کی اس سلسلے میں کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ یورپی ملکوں کے تعاون میں مانع بن جائیں لیکن اس میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ ایران پرعلاقے میں دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگانا اور علاقے کی سلامتی کے لئے ایران کے دفاعی میزائل پروگرام کے خطرہ ہونے کا دعوی کرنا، امریکہ ، اسرائیل کی ایران مخالف پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ نے 1996 میں ایران کے خلاف مختلف سازشوں اور پابندیوں کا جال بچھایا لیکن ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ گذرجانے کے باوجود، وہ اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا ہے-

 اس وقت ایک بار پھر واشنگٹن کی کوشش ہے کہ ایران کے خلاف شدید پابندیاں عائد کرکے اپنے زعم میں ایران کو گوشہ نشیں کردے۔ لیکن اس مسئلے میں ٹرمپ کے حامی صرف نتن یاہو ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لئے نتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا تبادلۂ خیال اور دونوں فریقین کے درمیان اس سلسلے میں مشترکہ ٹیم کی تشکیل دینا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے-  صیہونی اخبار ھاآرٹص نے کچھ دنوں قبل لکھا تھا کہ امریکہ نے تہران کے خلاف معاشی پابندیوں پر عملدرآمد کے لئے اسرائیل کے ساتھ ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی ہے-

عالم عرب کے ممتاز تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے بھی ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ ایک بڑی حماقت کا مرتکب ہونے والا ہے کہ جس کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسرائیل اور خلیج فارس کے بعض ممالک کو اس کی بابت مالی، سلامتی ، امن و استحکام اور فلاح و بہبود کے لحاظ سے بھاری قیمت چکانا پڑے گی- اس ممتاز تجزیہ نگار کے بقول اگر امریکہ ایران کے خلاف اقتصادی جنگ میں داخل ہوگا تو وہ یہ اقدام خلیج فارس کے ملکوں کی حمایت کے لئے انجام نہیں دے گا بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کی حمایت اور علاقے میں اس کی بالادستی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا اور اس حکومت کے حریفوں کو ختم کرنا ہوگا۔ 

لیکن امریکی حکام اس بار بھی ایران کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے میں غلطی کا شکار ہوئے ہیں امریکہ کے ایٹمی ماہر اور یونیورسٹی پروفیسر جیم والش کے بقول ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا نکل جانا، ایران سے زیادہ امریکہ کے نقصان میں ہے اور ایران کے خلاف پابندیوں پر اصرار، آخرکار ٹرمپ حکومت کو عالمی سطح پر گوشہ نشیں کردے گا- ایران کے خلاف نتن یاہو اور ٹرمپ کے مشترکہ اقدامات، قطعی طور پر امریکہ کے گوشہ نشیں ہونے میں تیزی آنے کا باعث بنیں گے-    

     

 

ٹیگس