ترکی میں مغرب کے کشیدگی پیدا کرنے والے اقدامات کے بارے میں اردوغان کا انتباہ
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بعض مغربی ملکوں پر اپنے ملک میں امن و استحکام کو درھم برھم کرنے کا الزام عائد کیا ہے-
رجب طیب اردوغان نے کہا کہ بعض مغربی ممالک اس فکر میں ہیں کہ کس طرح ترکی میں امن و استحکام کو درھم برھم کردیں۔ لیکن ان کو یہ جان لینا چاہئے کہ کوئی بھی ملک ترکی کو بدامنی سے دوچار نہیں کرسکتا-
رجب طیب اردوغان نے گذشتہ تین برسوں کے دوران بارہا، امریکی قیادت میں مغربی حکومتوں پر، ترکی میں امن و ثبات درھم برھم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ترکی کے صدر کے دعوے کے اثبات کے لئے بہترین مثال، امریکہ اور مغربی حکومتوں کی جانب سے کردستان لیبر پارٹی ( پی کے کے ) اور اسی طرح شام اور عراق کے کردوں کی مدد و حمایت کرنا ہے۔ انقرہ کے حکام کا ماننا ہے کہ ایسے میں کہ جب ترکی کی فوج اپنے تمام تر وسائل و ذرائع کے ساتھ ترکی کے کردوں اور علاقے کے کردوں کا مقابلہ کر رہی ہے، تو امریکہ بھی ان کرد گروہوں کی ہتھیاروں ، لاجسٹک سپورٹ اور فوجی مشیروں کے ذریعے، درحقیقت مشرق وسطی کے علاقے میں ترکی کے ساتھ جنگ کر رہا ہے۔
اسی سلسلے میں ترکی کے اخبار ینی شفق نے اپنے حالیہ شمارے میں لکھا ہے " پی کے کے سے موسوم ترکی کی کردستان لیبر پارٹی" اور شام میں "کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس" کے بعض افراد کے اعترافات اور قرائن و شواہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ ان گروہوں کی بدستور حمایت کر رہا ہے- جبکہ ترکی کی کردستان لیبر پارٹی تیس سال سے زیادہ برسوں سے انقرہ کی مرکزی حکومت سے نبرد آزما ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل تک، ترکی اور امریکہ ایک دوسرے کو اپنا اسٹریٹیجک اتحادی سمجھتے تھے۔ انقرہ کے حکام نے اسی طرح کہا ہے کہ امریکہ نے خاص طور پر جولائی 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد، ترکی کی معیشت کو نقصان پہنچانے اور اسے ختم کرنے کے مقصد کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں ترکی کے حکام نے عالمی کرنسیوں خاص طور پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترکی کی قومی کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافے کی طرف اشارہ کیا ہے- انقرہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ترکی میں حالیہ دنوں میں جو اقتصادی مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا سبب امریکہ کی منصوبہ بندی ہے جس کے ذریعے وہ ترکی کی معیشت کو نقصان پہنچانے اور اس پر زیادہ سے دباؤ ڈالنے کے درپےہے-
ترکی کے خلاف امریکا کی تجارتی جنگ اور پابندیوں کے بعد ترکی کی کرنسی کی قدر میں، ڈالر کے مقابلے میں تقریبا پینتیس فیصد کمی واقع ہوگئی۔ ترک عوام اور خاص طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے حامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ترکی میں کرنسی کا بحران امریکا نے جان بوجھ کر پیدا کیا ہے کہ تاکہ ترکی کو کمزور کرے۔
سب سے اہم بات، جولائی 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت میں امریکی مشارکت کا الزام ہے کہ جو تقریبا تین سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود دونوں ملکوں پر سایہ فگن ہے- ترکی کے حکام نے، انقرہ میں امریکہ کے سابق سفیر پر پندرہ جولائی 2016 میں ہونے والی ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انقرہ میں امریکہ کے سابق سفیر جان باس، جولائی 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت میں ملوث تھے اور اس بغاوت کی حمایت کی تھی-
امریکہ کے ساتھ ترکی کے اختلافات اور اس میں روز افزوں شدت کے پیش نظر اب ان دونوں ملکوں کو مشرق وسطی میں ایک دوسرے کا اسٹریٹیجک اتحادی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ روس اور ایشیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی اور اتحاد، اور امریکہ اور نیٹو سے دوری، انقرہ کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے-