امریکہ علاقے میں بدامنی اور عدم استحکام کا باعث ہے: جواد ظریف
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی، جتنی جلدی شام سے نکل جائیں اس ملک کے عوام کے لئے بہتر ہوگا-
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بدھ کے روز ، شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی خبر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکیوں نے کسی بھی ملک کے لئے اور کسی کے لئے بھی امن قائم نہیں کیا ہے- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انیس دسمبر 2018 کو یہ اعلان کیا تھا کہ امریکی فوجی شام کی سرزمین سے نکل جائیں گے- یہ موقف شام میں امریکیوں کی پالیسی کی شکست کی علامت ہے کہ جنہوں نے گذشتہ سات برسوں میں دہشت گردوں کی کسی بھی قسم کی حمایت سے دریغ نہیں کیا ہے-
شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا، اگرچہ پہلے قدم میں بہت تیزی سے اعلان کیا گیا لیکن بعد میں ٹرمپ پر تنقیدوں اور مغربی ایشیا کے علاقے میں اس کے اتحادی ملکوں کی تشویش کے باعث اعلان کیا گیا کہ یہ انخلا اب تدریجی اور رفتہ رفتہ انجام پائے گا- اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے مغربی ایشیا کے علاقے کا دورہ کیا تاکہ شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بارے میں اپنے اتحادیوں کی تشویش کو برطرف کریں-
سی این بی سی، ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے پیر کے روز مشرق وسطی کے دورے سے قبل ایک بیان میں کہا کہ اس علاقے میں امریکہ کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہوئی ہے اور صرف طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔ انھوں نے شام میں امریکہ کی نادرست پالیسیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں امریکہ کے اتحادی ملکوں کے لئے کافی ابہامات پیدا ہوئے ہیں۔ پمپیؤ نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کی ایران مخالف پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔
اس درمیان امریکی حکمراں، علاقے میں ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کے بہانے اس کوشش میں ہیں کہ شام سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے عمل کے تعلق سے داخلی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں تاکہ امریکی معاشرے میں اس انخلا کو امریکہ کی مطلق شکست اور ایران کے لئے کامیابی تصور نہ کیا جائے- اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے بدھ کے روز اپنے دورہ عراق میں امریکی فوجیوں اور عراق کے اعلی حکام سے ملاقات کی اور ان کو شام سے امریکی فوج کے انخلا کا یقین دلایا اور ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ ایران علاقے کے لئے بدستور خطرہ ہے-
وزیر خارجہ پامپئو ایسے میں اپنے دورۂ بغداد میں ایران کو علاقے کے لئے خطرہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی پالیسی اور رویہ، مغربی ایشیا منجملہ عراق اور شام میں بدامنی کا سرچشمہ ہے- یہ بدامنی عراق اور شام میں داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کی حمایت کے ساتھ پھیلائی گئی ہے- داعش سے مقابلے کے وقت عراقی حکومت کی اپیل سے بے توجہی ، دہشت گردی سے مقابلے میں امریکہ کے دوہرے معیار کی پالیسی کا ایک اور رخ ہے کہ جس سے مقابلے کا دعوی امریکی اتحاد کے دائرے میں کیا جا رہا ہے-
اس حقیقت کے پیش نظر، ایران جیسے ملک پر جس نے پڑوسی ملک کی حیثیت سے اور بغداد کی جانب سے مدد کی اپیل پر، عراق کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی ہے، اس پر عراق میں افراتفری پھیلانے اور اسے خطرہ ظاہر کرنے کا الزام عائد کرنا صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت داعش عراق میں شکست کھا چکا ہے ایسے میں اس ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی- ایران کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کرنے اور افراتفری پھیلانے سے امریکہ کا مقصد، عراق میں امریکی فوجیوں کی دائمی موجودگی کے لئے ایک بہانہ تلاش کرنا اور شام سے امریکی فوجیوں کو نکال کر عراق میں داخل کرنے کی زمین ہموار کرنا ہے-
شام اور عراق میں امریکی فوج کی موجودگی کا تجربہ ان ملکوں کو سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں کرسکا ہے اسی لئے آج شام و عراق میں امریکیوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجات اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں- عراقی پارلیمنٹ میں دفاع اور سلامتی کمیشن کے رکن "کریم المحمداوی "نے کہا کہ فوجی طیارے سے پامئو کا دورۂ بغداد ، عراق کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی اور اس ملک کی توہین ہے-
عراق کے علاوہ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی فوجی جہاں بھی موجود رہے ہیں انہوں نے بدامنی کو بڑھاوا دینے کے ساتھ اور کچھ نہیں کیا ہے اور آخرکار ایک نہ ایک دن وہ اپنی شکست خوردہ پالیسیوں کے ساتھ علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوں گے-