جواد ظریف کا دورہ عراق، بغداد سے اربیل تک دوستانہ تعلقات کا برملا اظہار
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے پانچ روزہ دورۂ عراق میں بغداد اور عراقی کردستان ریجن کے حکام سے ملاقات نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے دوستانہ ہونے کو بخوبی واضح کردیا -
ڈاکٹر محمد جواد ظریف اتوار کو عراق کے دارالحکومت بغداد پہنچے تھے اور جمعرات کی شام کو وہ اپنا یہ پانچ روزہ طویل دورہ مکمل کرکے دارالحکومت تہران لوٹ آئے- ایران کے وزیر خارجہ نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں اس ملک کے صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ اسپیکر سے ملاقات کے علاوہ، عراقی کردستان ریجن کے حکام سے بھی اربیل اور سلیمانیہ میں ملاقات اور گفتگو کی- جواد ظریف کے عراق کے پانچ شہروں کے دوروں، اور ان شہروں کے حکام کی جانب سے خواہ شیعہ ہوں یا سنی، آپ کے پرتپاک استقبال نے، عراق کی مختلف قوموں کے سلسلے میں ایران کی واحد اور یکساں سیاست کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا- جیسا کہ ایران کے وزیرخارجہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ عراقی حکام سے ملاقاتوں میں ایران اورعراق کے عوام اور حکومت کے درمیان قریبی رابطوں اور رشتوں کا اثر پوری طرح نمایاں تھا-
ایران کے وزیر خارجہ نے عراق کے مختلف شہروں میں تین اقتصادی کانفرنسوں میں شرکت کی اور عراقی حکام نے بھی ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعلقات کے فروغ پر تاکید کی ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عراق و ایران کے حکام، عراق میں داعش دہشت گرد گروہ کے خاتمے اور ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کے بعد، اپنے اقتصادی تعاون کو ماضی سے زیادہ فروغ دینے کا مشترکہ عزم رکھتے ہیں-
مشترکہ ثقافت، دین اور زبان نے مختلف میدانوں میں ایران اور عراق کے تعلقات کو تقویت بخشا ہے اور اس طرح کے تعلقات، روشن مستقبل کی نوید ہیں- جیسا کہ ایران کے وزیرخارجہ نے کہا ہےکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایران اور عراق کے تعلقات کا مستقبل پوری طرح روشن ہے اور انشااللہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں روز برروز پائیداری آئے گی۔
ایران کے وزیر خارجہ نے تہران بغداد تعلقات کے بارے میں امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو کے مداخلت پسندانہ بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مائک پمپیو کو ایران اورعراق کے تعلقات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اورعراق کے درمیان اس وقت سے تعلقات چلے آرہے ہیں جب دنیا میں امریکہ کا وجود بھی نہیں تھا اور ہمارے درمیان بہت ہی اچھے تعلقات رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، چھبیس دسمبر کو رات کی تاریکی میں عراقی حکام کی اطلاع کے بغیر سخت ترین سیکورٹی میں سیدھےعراق کے صوبے الانبار کے ایک فوجی اڈے میں اترے تھے اور پھر وہیں سے واپس امریکہ چلے گئے تھے۔ ٹرمپ کے اس خفیہ دورۂ عراق اور جواد ظریف کے پانچ روزہ دورۂ عراق کے درمیان جو فرق ہے وہ اس ملک کے موجودہ سیاسی حقائق کو کھل کر بیان کر رہا ہے-
عراق کے دورے کے موقع پر، اس ملک کے قومی اقتدار اعلی سے امریکی صدر ٹرمپ کی بے توجہی اوراس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو کے دورۂ عراق نے یہ واضح کردیا کہ یہ ملک عراق کے سخت اور برے دنوں میں کام آنے والا اور حقیقی دوست نہیں ہے- ایران کا نقطہ نگاہ عراق کی پوری قوم کے حق میں یکساں ہے اور جواد ظریف کے پانچ روزہ دورۂ بغداد اور اس کے بعد اربیل اور سلیمانیہ کے دوروں سے اسلامی جمہوریہ ایران کی واضح اور اصولی پالیسی، سب پر اچھی طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ جسے وہ عراق کے قومی اقتدار اعلی اور اس کے تحفظ کے سلسلے میں انجام دیتا آرہا ہے-
امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ عراق پر عراقیوں کے غیض و غضب اور ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون منقطع کرنے کے لئے پامپئو کی درخواست کو عراقیوں کی جانب سے مسترد کئے جانے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ امریکہ کے تعلق سے عراقیوں کا نقطہ نگاہ کیا ہے؟ یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراقی کردستان ریجن کے وزیر اعظم نے جواد ظریف کے ساتھ ملاقات میں کچھ منٹ تک فارسی زبان میں بات چیت کی۔ جواد ظریف کا یہ شایان شان استقبال، خود ہی تمام حقائق کو بیان کرنے والا اور علاقائی و بین الاقوامی پیام کے حامل ہونے کا ترجمان ہے-
اس سے قبل بھی عراق کے مختلف علاقوں میں داعش دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے وقت بھی ، ایران نے داعش سے مقابلے میں، عراق کے اہل تشیع، اہل تسنن اور کردوں کی مدد کی تھی اور عراق کے برے دنوں میں بھی عراق کی ارضی سالمیت کے تحفظ کو بھی فراموش نہیں کیا- جیسا کہ ڈاکٹر جواد ظریف نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کے خون سے عراق اور ایران کے عوام کے درمیان دیرینہ رشتوں کی مزید آبیاری ہوئی ہے۔
ایران کی اس حقیقی دوستی کا جواب ، ان دنوں عراق کے مختلف حکام کے مواقف میں نمایاں نظر آتا ہے اور امریکہ کی پابندیوں کے باوجود، ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات جاری رکھنے پر ان حکام کی تاکید نے ایران و عراق کے تعلقات میں کسی قسم کا تصنع اور دکھاوا نہ ہونے کو سب پر ثابت کردیا ہے-
چنانچہ ڈاکٹرجواد ظریف نے بھی اپنے دورۂ عراق میں، کچھ عرصہ قبل انجام پانے والے امریکی صدر کے خفیہ دورہ عراق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ عراق کے ساتھ ہمارے تعلقات بناوٹی اور مصنوعی نہیں ہیں، لہذا ہمیں چھپ کرعراق آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عراقی عوام سے مل سکتے ہیں ان کے درمیان جاسکتے ہیں، مقدس مقامات کی زیارت کرسکتے ہیں اورعراقیوں میں گھل مل سکتے ہیں۔