افغان امن عمل کے تعلق سے ماسکو اجلاس کے نتائج کےبارے میں شکوک و شبہات
امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکرات کار ٹیم کے سینئر رکن نے، افغانستان کی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے گروہ طالبان کی آمادگی کی خبر دی ہے-
شیرمحمد عباس استانکزئی نے کہا ہے کہ گروہ طالبان، تمام سیاسی دھڑوں، علما اور عمائدین کے ساتھ جس وقت بھی وہ چاہیں مذاکرات کے لئے تیار ہے- اگرچہ استانکزئی نے اس ملاقات کی جگہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تاہم مذاکرات کے دونوں فریق کو روس کی جانب سے دعوت دیئے جانے کے پیش نظر، شیر محمد عباس استانکزئی ایک طرح سے اس اجلاس میں شرکت کا دفاع کر رہے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کی وزرات خارجہ نے ماسکو اجلاس کے انعقاد پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے اجلاسوں سے افغانستان میں امن کے حصول کی راہ ہموار نہیں ہو گی- قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے امور میں امریکی نمائندے زلمی خلیل زاد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان حال ہی میں ہونے والے مذاکرات کے کئی ادوار کے انعقاد کے بعد ، روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ عنقریب ہی ماسکو میں افغان امن عمل کے سلسلے میں اپنا دوسرا اجلاس منعقد کرائے گا، جس میں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نمائندے اور افغانستان کی بعض پارٹیوں کے نمائندے شرکت کریں گے-
روسی حکام کے بقول افغان حکومت کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے- ایسے میں جبکہ طالبان اور بعض پارٹیوں کے رہنماؤں نے ماسکو اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول کرلی ہے کابل حکومت، امریکہ اور روس کی قیادت میں، افغانستان میں امن کے سلسلے میں انجام پانے والے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو اپنے ملک کے داخلی امور میں مداخلت قرار دے رہی ہے اور شدت سے اس کی مخالف ہے-
افغانستان کی اعلی امن کونسل کی رکن حبیبہ سرابی کے اس تعلق سے ایک بیان کو، کہ جسے اس ملک کے ایوان صدارت نے بھی شائع کیا ہے کہتی ہیں: افغانستان میں امن و صلح کا مسئلہ، اس ملک کا قومی و ملی مسئلہ ہے لہذا اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کابل حکومت کی قیادت و نگرانی میں انجام پائیں اوراس میں تمام سیاسی گروہ منجملہ خواتین بھی اپنا کردار ادا کریں اور یہ مذاکرات امن کے پیغامبر ہوں-
گروہ طالبان اور افغانستان کی بعض پارٹیوں کے نمائندوں کے درمیان روس کے اجلاس کے بارے میں قابل غور نکتہ یہ ہےکہ گروہ طالبان نے ان مذاکرات کو قبول کیا ہے- کیوں کہ طالبان نے اس سے قبل صرف امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو قبول کیا تھا اس کے معنی یہ ہیں کہ طالبان، افغانستان کے سیاسی میدان میں تفرقہ و انتشار پیدا کرنے کے درپے ہے- حزب وحدت اسلامی کے رہنما محمد محقق، عطا محمد نور، جمعیت اسلامی کے رکن محمد اسماعیل خان اور افغانستان کے سابق صدر حامدکرزئی کو ماسکو میں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے دعوت دی گئی ہے- اس امر کے پیش نظر کہ روس میں، یا کسی بھی عرب ملک میں امریکہ کی شرکت سے، افغان امن کے متعلق جو بھی مذاکرات ہوئے ہیں ان میں افغان حکومت کے نمائندے کو دعوت نہیں دی گئی ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان امن کا عمل ، ملکوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے مختلف ہے کہ جس میں افغان حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے-
سیاسی مسائل کے ماہر معین مرسٹیال اس بارے میں افغانستان کے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں " افغان امن عمل کے سلسلے میں جتنے بھی مذاکرات افغانستان سے باہر ہوئے ہیں اس کی قیادت غیر ملکیوں نے کی ہے اور اسی سبب سے اس کا کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا ہے- جبکہ ایسے اجلاس، جس کی قیادت و صدارت اور نگرانی حکومت افغانستان کرے اور اس میں کئے جانے والے فیصلوں کی حمایت افغان حکومت کرے، تو وہ اجلاس دیگر اجلاسوں کی نسبت بہت زیادہ اہمیت کے حامل اور موثر واقع ہوں گے-
بہرحال روس کی حکومت ایسے میں افغان امن عمل کی ثالثی کے لئے کوشاں ہے کہ افغانستان میں ستر کے عشرے کے اواخر میں سوویت یونین کی ریڈ آرمی کی جانب سے اس ملک پر قبضے اور اس میں انجام دیئے جانے والے جرائم کے سبب افغان عوام ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ماسکو حکومت، افغانستان میں امن کے تعلق سے اجلاسوں کا انعقاد کرکے اس ملک کے عوام کے درمیان دوبارہ اپنا تشخص حاصل کرنا اور اپنی ساکھ مضبوط کرنا چاہتی ہے- یہ ایسی حالت میں کہ کابل حکومت، افغان امن عمل میں غیرملکیوں کی کسی بھی قسم کی مداخلت کو افغانستان کی خودمختاری اور قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے- ایسے میں کابل حکومت کے نقطہ نگاہ سے، روس کے توسط سے افغانستان کی بعض پارٹیوں کے رہنماؤں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دینے کا اقدام، افغانستان کی سیاسی فضا کو مزید انتشار وافتراق کو ہوا دینے اور اس ملک کی حکومت کو ماضی سے زیادہ کمزور کرنے کے مترادف ہے- اسی سبب سے افغانستان کی حکومت نے ، افغان امن کے عمل کی قیادت کے تعلق سے اس کے عہد وپیمان سے روسی حکومت کی بے توجہی کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے-