May ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ظریف کا دورۂ ہندوستان، ایران کی متحرک اور فعال علاقائی ڈپلومیسی کا مظہر

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمدجواد ظریف پیر کی شام کو ہندوستانی حکام سے ملاقات کے لئے نئی دہلی پہنچے-

ایران کے وزیر خارجہ کا دورۂ ہندوستان کہ جو ان کے دورۂ ترکمنستان کے دورے کے فورا بعد انجام پایا ہے، علاقائی تعلقات کے نقطۂ نظر سے اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال ڈپلومیسی کا غماز ہے- جواد ظریف نے اپنے دورۂ ترکمنستان کے اختتام پر اس ملک کے صدر قلی بردی محمد اف اور ترکمنستان کے وزیر خارجہ رشید مردوف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ اور علاقائی و بین الاقوامی مسائل کے تعلق سے مذاکرات میں نقل وحمل، توانائی، ٹرانزٹ، تجارت اور منشیات سے مقابلے جیسے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے پر غور کیا گیا- 

ایران کے وزیر خارجہ نے دورۂ نئی دہلی کے موقع پر بھی تمام شعبوں میں تعلقات کے فروغ پر تاکید کی ہے- توانائی، بینکنگ، نقل و حمل اور چابہار کی اسٹریٹیجک بندرگاہ میں سرمایہ کاری جیسے اہم شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہندوستان کے وسیع تعلقات ، دوطرفہ اور چند فریقی اقتصادی و تجارتی معاملات میں نئے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں- اسی سبب سے یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان، ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں توسیع اور اس کی حفاظت کے لئے دو اہم موقف یعنی توانائی کی فراہمی اور چابہار بندرگاہ اور شمال - جنوب کوریڈور کے راستے سے ایران کے ٹرانزٹ راستے تک رسائی کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے- 

ایران کے جنوب مشرق میں واقع چابہار بندرگاہ کی اسٹریٹیجک پوزیشن نے، ہندوستانی حکام کو انرجی اور ٹرانزٹ سمیت دیگر میدانوں میں ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے اور سرمایہ کاری کرنے کی جانب زیادہ سے زیادہ ترغیب دلائی ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہےکہ ہندوستان کا اس بندرگاہ میں سرمایہ کاری انجام دینا، اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ نئی دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ہندو نے بھی اس بارے میں ایک تجزیے میں لکھا  کہ ایران کے خلاف امریکہ کے سخت مواقف کے باوجود نئی دہلی، چابہار بندرگاہ میں توسیع کے اپنے وعدے پر قائم رہے گا- 

ہندوستان کو اعلی معاشی ترقی کے ساتھ، توانائی کے مطمئن ذرائع کی ضرورت ہے اور ایران اس ہدف کے لئے، بہترین آپشن ہے - ہندوستان عالمی سطح پر تیل درآمد کرنے والا اور تیل کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے اور چین کے بعد ایران کے تیل کا سب سے اہم اور بڑا خریدار ملک ہے- اسی لئے یہ بات واضح ہےکہ توانائی کے ذرائع تک آزادانہ طور پر دسترسی میں کسی قسم کی مانع تراشی ممکن ہے تیل و گیس کے بڑے صارف ملکوں کی معیشت پر منفی اثر مرتب کرے- اسی سبب سے ایٹمی معاہدے سےامریکہ کے نکل جانے کا مسئلہ اور امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کا اعادہ اور ایران کے ساتھ تیل کی خریداری کے باعث دیگر ملکوں پر بھی پابندیاں مسلط کرنا ایسے مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں ایران کے وزیر خارجہ کے دورۂ ہندوستان میں مذاکرات انجام پائیں گے-

ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایرانی وزیر خارجہ کے گذشتہ سال کے دورۂ نئی دہلی کے موقع پر کہا تھا کہ ہندوستان نے صراحتا اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گا- واضح رہے کہ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے یکطرفہ اور غیرقانونی طور پر باہر نکل جانے کے بعد سے واشنگٹن ، ہندوستان سمیت دیگر ممالک پر ایران سے تیل کی درآمدات روکنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ ایران کی تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچا دے، تاہم ہندوستان نے ایران سے تیل کی خریداری روکنے کے لئے امریکی درخواست مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری نہیں روکے گا-  

گذشتہ برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان متعدد سمجھوتوں پر دستخط ہوئے ہیں کہ جن میں سے پندرہ معاہدوں کو گذشتہ سال فروری کے مہینے میں صدر مملکت حسن روحانی کے دورۂ نئی دہلی کے موقع پر حتمی شکل دی گئی- یہ معاہدے دوگنا ٹیکس لینے سے اجتناب، زراعتی شعبے میں تعاون ، دونوں ممالک کے چیمبر آف کامرس کے درمیان تعاون کو فروغ دینے اور بینکنگ کے مسائل پر مشتمل ہیں- اسی تناظر میں جواد ظریف کا دورۂ نئی دہلی ایک نقطہ نظر سے ایران کی فعال علاقائی ڈپلومیسی کے دائرے میں قابل غور ہے اور ایک اور نقطہ نظر سے تہران اور نئی دہلی کے دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں بھی اہمیت کا حامل ہے - خاص طور پر اس لحاظ سے کہ جواد ظریف کے دورۂ ہندوستان میں ایک اعلی سیاسی و اقتصادی وفد بھی ان کے ہمراہ ہے- 

 

 

      

ٹیگس