سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے 300 حساس مقامات، انصاراللہ یمن کے میزائلوں کی زد پر
انصاراللہ یمن نے اعلان کیا ہےکہ سعودی عرب کی ریاستی تیل کمپنی آرامکو سے وابستہ دو پٹرولیم پمپنگ اسٹیشنوں پر چودہ مئی کو ہونے والے حملے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن میں اس کے تین سو فوجی اور بنیادی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کا پیش خیمہ ہیں-
یمن کے خلاف عرب اتحاد جنگ کو چار سال سے زائد کا عرصہ ہو رہاہے - چار سال کے بعد اس جنگ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے- ان میں سے ایک اہم ترین پہلو مزاحمت اور انصاراللہ اور یمنی فوج کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہے۔ سعودی عرب، گذشتہ پچاس مہینوں کے دوران یمن کے خلاف جنگ میں حملہ آور رہا ہے- بالفاظ دیگر، سعودی عرب جنگ شروع کرنے والا اورگذشتہ پچاس مہینوں کے دوران یمن کے خلاف مسلسل حملے کرنے والا ملک رہا ہے-
اس جنگ کے دوران جو اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے یہ ہے کہ انصاراللہ اور یمنی فوج کی دفاعی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہوا ہے- یمن کی فوج اور عوامی فورسیز نے جنگ کے ابتدائی برسوں میں ہی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو بہت کم ہی نقصان پہنچایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انصاراللہ کی زیادہ تر توجہ اس وقت خانہ جنگی کو روکنے، اپنے زیر قبضہ علاقوں اور دارالحکومت صنعا کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے پر مرکوز تھی- لیکن گذشتہ مہینوں کے دوران انصاراللہ نے اپنی روش تبدیل کرکے جنگ کے میدان میں اہم تبدیلی پیدا کی ہے- انصاراللہ اور یمنی فوج نے اب دفاعی مرحلے سے نکل کر، ڈرون طیاروں کے ذریعے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچانے کی ٹیکٹک اپنائی ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں یمنی فوج اور انصاراللہ کے ڈرون طیاروں نے سعودی عرب کے نجران ایئرپورٹ پر حملہ کرکے اس ایئر پورٹ میں موجود ہتھیاروں کے ایک گودام کو آگ لگا دی- سعودی عرب سے وابستہ الھدف چینل نے اعتراف کیا ہے کہ انصاراللہ نے سعودی عرب کے ایک حساس اور اہم مرکز کو دھماکہ خیز مواد کے حامل ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا ہے-
اس اہم واقعے کے بعد، صنعا میں انصاراللہ کی حکومت سے وابستہ وزارت دفاع کے ایک ذریعے نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ چودہ مئی کی کاروائی، آئندہ دنوں میں انجام پانے والی فوجی کاروائیوں کا پیش خیمہ ہے کہ جس میں یمن کی مسلح افواج، جارح سعودی اتحاد سے وابستہ تین سو بنیادی اور فوجی اہداف کو نشانہ بنائیں گی-
یہ اہم تبدیلی جنگ یمن کے میدان میں چند اہم نتائج کی حامل رہی ہے-
اول تو یہ کہ انصاراللہ اور یمنی فوج نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ جنگ کے طول پکڑنے سے نہ صرف ان کے ارادے کمزور نہیں ہوئے ہیں اور ان کی طاقت میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ اپنی فوجی ٹکنالوجی کے سبب وہ مضبوط ہوئے ہیں اور دشمن کے خلاف حملے کی توانائی میں اضافہ ہوا ہے-
دوسرے یہ کہ اب یمنی فوج اورانصاراللہ کے حوصلے بلند ہیں اور وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تین سو بنیادی اور حساس اہداف کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں-
تیسرے یہ کہ جنگ یمن میں رونما ہونے والی اہم تبدیلی سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس جنگ کا جاری رہنا اور اس کا اختتام اس طرح سے نہیں ہوگا جو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مدنظر ہے- سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو نئے حملوں اور بدترین نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا - سیاسی مذاکرات بھی انصاراللہ پر ان کے مطالبات مسلط کرنے کے مقصد سے نہیں کئے جائیں گے کیوں کہ یمن میں انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن چار سال قبل کی نسبت مضبوط ہوئی ہے- اس بنا پر اس جنگ کا خاتمہ نہ صرف انصاراللہ اور اس کے اتحادیوں کے تسلیم ہونے پر نہیں ہوگا بلکہ اس صورت میں کہ اگر سعودی عرب یمن کے موجود حقائق کا صحیح ادراک نہیں کرپایا تو یمن ، آل سعود کے لئے ویتنام ثابت ہوگا-
واضح رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بعض دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر مارچ دوہزار پندرہ میں یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں عام شہری شہید اور زخمی نیز لاکھوں کی تعداد میں عام شہری بے گھر ہوئے جبکہ یمن کی بنیادی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا اور یمن کا ہر طرف سے مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس غریب عرب اسلامی ملک پر سعودی اتحاد کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں اس ملک کے عوام کو دواؤں اور غذائی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے پھر بھی یمنی عوام کی استقامت کے نتیجے میں سعودی اتحاد کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔