مسجد الاقصیٰ پر اسرائیلی حملوں میں اضافہ
اسرائیل نے، جسے استقامتی محاذ کے ہاتھوں پے در پے شکستیں ہوئی ہیں، حالیہ مہینوں میں مسجدالاقصیٰ پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔
گزشتہ دو روز کےدوران 1200 سے زیادہ صیہونی انتہا پسند، اسرائیلی فوجیوں کی مدد سے، مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوئے۔ فلسطینی نمازیوں نے صیہونی انتہا پسندوں کی اس جارحیت کا مقابلہ کیا جس کے بعد صیہونی حکومت کی پولیس اور نمازیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ صیہونی حکومت کی پولیس نے فلسطینیوں کے خلاف آنسو گیس اور پلاسٹک کی گولیوں کا شدید استعمال کیا اور 45 فلسطینیوں کو زخمی کردیا۔ مسجدالاقصیٰ پر اسرائیلی حملوں کے بارے میں کچھ نکات اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا نکتہ یہ کہ حالیہ مہینوں میں مسجدالاقصیٰ پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ سنہ 2019ع میں 2 ہزار سے زیادہ صیہونی انتہا پسندوں نے مسجدالاقصیٰ پر حملے کئے تھے۔ ان حملوں میں صیہونی انتہا پسندوں کو اسرائیلی فوجیوں کی مدد حاصل تھی جس طرح مسجدالاقصیٰ پر نئے حملوں میں بھی اسرائیلی فوجیوں کی مدد شامل ہے۔ بنابریں، مسجدالاقصیٰ پر ہونے والے حملے، صیہونی انتہاپسندوں کے اپنے حملے نہیں ہیں بلکہ یہ صیہونی حکومت کی طرف سے انجام دیا جانے والا منصوبہ بند اقدام ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ مسجدالاقصیٰ پر ہونے والے حملے فلسطینی عوام کے مذہبی حقوق کی کُھلی خلاف ورزی ہیں۔ صیہونی انتہا پسند اور اسرائیلی فوجیوں نے مسجدالاقصیٰ پر ایسے حالات میں حملے کئے ہیں کہ جب ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے بہت سے نمازی عبادت اور اعتکاف کی حالت میں تھے۔ صیہونی انتہا پسندوں اور اسرائیلی فوجیوں کا یہ اقدام فلسطینی عوام کے مذہبی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے بہت سے معاہدوں اور قراردادوں کے مطابق لوگوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔
تیسرا نکتہ یہ کہ مسجدالاقصیٰ پر حالیہ حملے ایسے حالات میں ہوئے ہیں کہ صیہونی حکومت کے فوجی حالیہ برسوں میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں صیہونی انتہاپسندوں کو مسجدالاقصیٰ میں داخلہ کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ دراصل، ایک معاہدہ کے تحت صیہونی انتہا پسندوں کو مسجدالاقصیٰ میں داخل نہیں ہونے دیا جاتاتھا لیکن رواں سال میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی جس کے نتیجہ میں فلسطینی نمازیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اسی سلسلے میں فرانس کی ایک خبررساں ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”یہ جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب صیہونی انتہا پسندوں نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں غیرمسلموں کے مسجدالاقصیٰ میں داخلہ پر بابندی کے معاہدہ کی خلاف ورزی کی تاکہ صیہونی حکومت کے فوجیوں کی مدد سے اس مقدس مقام میں داخل ہوسکیں۔“ اُدھر مسجدالاقصیٰ کے منتظم شیخ عمر الکسوانی نے بھی کہا ہے کہ ”صیہونی حکومت نے صیہونی انتہا پسندوں کو مسجدالاقصیٰ میں داخلہ کی اجازت دے کر فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔“
آخری نکتہ، اور وہ یہ ہے کہ عالمی برادری اور خاص طور سے انسانی حقوق کا دم بھرنے والی طاقتوں نے فلسطینیوں پر ہونے والے صیہونی حکومت کے دیگر مظالم کی طرح مسجدالاقصیٰ پر صیہونیوں کے حملوں کی بابت بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس خاموشی سے، جو صیہونی حکومت کی مدد کے مترادف ہے، غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینیوں کے خلاف مظالم جاری رکھنے کی ترغیب مل رہی ہے۔