Jun ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۸:۳۸ Asia/Tehran
  • جرمنی کے وزیر خارجہ کا دورۂ تہران، ایٹمی معاہدے پر تبادلۂ خیال

جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس پیر کے روز، ایران کے اعلی حکام کے ساتھ جوہری معاہدے پر تبادلہ خیال کیلئے ایران کے ایک روزہ دورے پر تہران پہنچے ہیں.

ظریف پیر کے روز تہران میں جرمنی کے وزیر خارجہ کے ساتھ خصوصی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں حاضر ہوئے- اس موقع پر انہوں نے اپنے جرمن ہم منصب اور ان کے ہمراہ وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج جرمن وفد کے ساتھ اچھے اور طویل مذاکرات کئے ہیں.

سیاسی مبصرین کے نقطہ نگاہ سے تہران مذاکرات میں دو اہم موضوعات زیر بحث آئے-  پہلا مسئلہ ایران کے خلاف واشنگٹن کا روز افزوں دباؤ ہے کہ جس کے تعلق سے یورپ کو اپنا موقف واضح اور شفاف طور پر بیان کرنا چاہئے- اور دوسرا مسئلہ ایٹمی معاہدے کی متزلزل صورتحال کا واضح ہونا ہے-

ان دو مسئلوں کے تعلق سے یورپ نے ہمیشہ محض وعدوں پر اکتفا کیا ہے۔ اور امریکی پابندیوں کے سبب، ایٹمی معاہدے سے ایران کو حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد کو ضمانت فراہم کرنے کے لئے یورپ کی جانب سےمخصوص مالیاتی نظام پر عملدرآمد کی بات بھی صرف وعدوں کی ہی حد تک ہے کہ جس پر ابھی تک عملدرآمد شروع نہیں ہوا ہے- اسی مقصد سے جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس اور جرمنی کے کامرس بینک کے سابق ڈائریکٹر اور ایران یورپ خصوصی مالیاتی نظام انسٹیکس کے سربراہ پرفیشر نے بیک وقت ایران کا دورہ کیا ہے-

واضح رہے کہ ایران نے ایک مہینہ پہلے، ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اس کی بعض شقوں پر عملدرآمد کو روک دیا ہے اور ایٹمی معاہدے کے فریقوں کو یہ مہلت دی ہے کہ وہ اس عالمی معاہدے کے دائرے میں، ایران کے تعلق سے کئ‏ے گئے اپنے وعدوں پر عمل کریں-

جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ایران کے لیے ایٹمی معاہدہ نہیں بلکہ اس کے نتائج اہم ہیں۔ انہوں نے ایرانی حکومت کی جانب سے جوہری معاہدے کے باقی ماندہ فریقوں کو دی جانے والی ساٹھ دن کی مہلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا تو ہم دوسرے اقدامات انجام دیں گے۔ 

بظاہر یورپ اور ایشیا کے اعلی رتبہ حکام کی اس وقت یہ کوشش ہے کہ وہ اس کشیدہ ماحول میں کمی لانے کے لئے، موثر مذاکرات کے راستے تلاش کرنے میں کوشاں ہیں- اس اسٹریٹجیجی میں ایک جانب جرمنی کے وزیر خارجہ کے دورۂ تہران اور دوسری جانب جاپانی وزیز اعظم شنزو آبہ کے عنقریب دورۂ تہران کے باعث تیزی آئی ہے-

زود دویچہ سایٹونگ نے ، جرمن وزیر خارجہ کے دورۂ ایران کے موقع پر ایک یاد داشت میں ایران کے حکام کے ساتھ جرمنی کے وزیر خارجہ کے مذاکرات کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے میں کہ جب ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں کی جانب  سے ایران کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے ایسے میں ایران سے اس سمجھوتے پر مزید کاربند رہنے کی توقع نہیں رکھنا چاہئے- اس مسئلے پر تاکید کسی حد تک جرمنی کے وزیر خارجہ کے دورۂ ایران کا مقصد واضح ہونے میں مدد کرے گی- لیکن موجودہ صورتحال میں یورپیوں کی توقعات اور نظریات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لئے، کسی حد تک جرمن پارلیمنٹ میں جرمنی کے وزیر خارجہ کی حالیہ تقریر سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے- 

انہوں نے دو ہفتہ قبل جرمنی کی پارلیمنٹ میں ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپ کی کارکردگی کو بیان کرتے ہوئے، ایٹمی معاہدے کو دیگر مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں کو قرار دیا ہے جیسا کہ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا ہےکہ ایٹمی معاہدے پر عمل کرنا صرف یورپی یونین کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے مطابق اس کونسل کے تمام رکن ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے ایٹمی معاہدے کی حمایت کریں- 

جرمنی کے وزیر خارجہ نے ایران پر تنقید بھی کی اور علاقے میں ایران کی سرگرمیوں کے حوالے سے یورپ کے موقف کا بھی اعادہ کیا جس کے جواب میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یورپ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی بھی حوالے سے اور خاص طور سے ایسے شعبوں کے بارے میں ایران پر نکتہ چینی کرے کہ جن کا ایٹمی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔محمد جواد ظریف نے مغربی ایشیاء کے علاقے میں مغربی ممالک کی مداخلت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ، سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں نکلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپ کو یہ بتانا ہوگا کہ ایران کے ساتھ اقتصادی لین دین کو معمول پر لانے کی غرض سے اس کے اقدامات کا کیا نتیجہ برآمد ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ یورپ اور ایٹمی معاہدے کے دیگر رکن ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اقتصادی لین دین معمول پر لانے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات انجام دیں۔ 

یوپی ممالک اپنے دوہرے مواقف کے ذریعے ایک جانب تو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں تو دوسری جانب ایران کے میزائل پروگرام اور اس کی دفاعی توانائیوں جیسے مسائل کے بارے میں امریکی مطالبات میں اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں- جبکہ ایٹمی معاہدے اور 2231 قرارداد میں ایران کے تعلق سے یورپی ملکوں اور اس معاہدے کے فریق ملکوں کے فرائض کو بیان کیا گیا ہے-    

ٹیگس