Jun ۲۳, ۲۰۱۹ ۱۶:۴۱ Asia/Tehran
  • عراق کے حالیہ دھماکوں سے دشمنوں کے اہداف و مقاصد

عراق میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران، بارہا دارالحکومت بغداد اور چند دیگر شہروں میں دھماکے ہوئےہیں-

کرکوک ، بصرہ اور بغداد تین ایسے اہم شہر ہیں کہ جن میں گذشتہ ایک مہینے کے دوران ہونے والے دھماکوں میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں- صرف بغداد میں دو روز قبل ہونے والے دھماکے میں دس افراد شہید اور زخمی ہوگئے-

واضح رہے کہ عراقی دارالحکومت بغداد کے مشرقی محلے کی ایک مسجد میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکے میں کم سے کم دس افراد شہید اور تیس دیگر زخمی ہوگئے۔ بغداد میں سیکورٹی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خود کش دہشت گردانہ حملہ تھا جو نماز جمعہ کے موقع پر کیا گیا- یہاں پر ایک اہم سوال جو پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ عراق کے مختلف علاقوں میں دھماکہ کرنے والے کون عناصر ہیں اور ان دھماکوں سے ان کا مقصد کیا ہے؟

عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست کے باوجود ابھی بھی داعش کے باقی بچے عناصر ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جو وقفے وقفے سے عام شہریوں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں- اگرچہ عراق میں، ایک تنظیم یا گروہ کے عنوان سے داعش کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور پورے عراق کو اس دہشت گرد گروہ سے خطرہ لاحق نہیں ہے۔ تاہم اب بھی داعش کے سیکڑوں عناصر عراق میں موجود ہیں- اور داعشی فکر رکھنے والے بہت سے افراد اس ملک کے بعض علاقوں میں ابھی بھی موجود ہیں کہ جو گاھے بگاھے تشدد کی کاروائیاں انجاد دیتے رہتے ہیں۔ بلا شبہ عراق کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دھماکوں میں داعش کے باقیماندہ عناصر ہی ملوث ہیں اور یہ دھماکے کرانے میں داعش گروہ ہی سرفہرست ہے- 

اٹلانٹیک جریدے نے ستمبر 2018 میں ایک رپورٹ میں جو " عراق میں داعش کے مستقبل " کے عنوان سے تھی لکھا تھا کہ عراق میں دوبارہ داعش کی واپسی کی ایک ٹھوس علامت، 2018 میں تقریبا دوسو دیہاتوں میں، قبائلی عمائدین اور شیوخ کو قتل کیا جانا تھا- 

سفید پرچموں والا  یا "رایات البیضا " ، ایک اور دہشت گرد گروہ ہے کہ جو عراق میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے- سفید پرچموں والے گروہ کے پاس بھاری فوجی سازو سامان ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ داعش کے باقی بچے عناصر کو بھی خود میں شامل کریں - یہ دہشت گرد گروہ زیادہ تر کرد علاقوں میں موجود ہے-

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے مئی 2019 میں عراق سے اپنے غیر ضروری کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ اس ملک کو ترک کردیں- عراق کے مختلف علاقوں میں دھماکوں میں بھی امریکہ کے اس فیصلے کے بعد اضافہ ہوا ہے- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ سے وابستہ اور حتی عرب ملکوں اور اسرائیل کے خفیہ ایجنٹ بھی عراق کے دھماکوں میں ملوث ہیں-

عراق میں ہونے والے دھماکوں میں اضافے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ، اول یہ کہ  داعش کے بچے ہوئے عناصر کی یہ کوشش ہے کہ اس طرح کے دھماکے کرکے یہ ثابت کریں کہ ابھی بھی عراق میں داعش اور اس کی فکر رکھنے والے عناصر موجود ہیں اور مکمل طور پر ان کا صفایا نہیں ہوا ہے-

دوسرے یہ کہ  کرد علاقوں میں موجود سفید پرچموں والے گروہ بھی اس پیغام کو منتقل کرنے میں کوشاں ہیں کہ وہ عراق کو تقسیم کرنے کے افکار کی ترویج کر رہے ہیں-

اور تیسرے یہ کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرکے اس کوشش میں ہیں کہ امریکی فوجیوں کو تحفظ دیئے جانے کے لئے عراق کی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور دوسری جانب اس کوشش میں ہیں کہ عراق میں بدامنی پیدا کرکے اس کا ذمہ دار اسلامی جمہوریہ ایران کو قرار دیں تاکہ بغداد اور تہران کے تعلقات خراب ہوجائیں- بغداد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے بھی دھماکے کئے گئے ہیں- یہ مسئلہ ، رواں سال مئی کے مہینے میں مکہ اجلاس میں عراق کے صدر برھم صالح کی جانب سے اصولی اور ٹھوس موقف کی حمایت کے توجہ کے پیش نظر، اہمیت کا حامل ہے۔ واضح رہے کہ برھم صالح نے مکہ اجلاس میں سعودی بادشاہ کے ایران مخالف بیان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسیوں کی حمایت کی تھی-

 امریکی صدر ٹرمپ ایران کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کے دعوے مسلسل کرتے رہتے ہیں  جبکہ تہران نے حالیہ برسوں میں عراق و شام میں تکفیری دہشت گردوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے- امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت و مدد سے داعش اور دیگر دہشتگرد گروہ شام و عراق میں  پھیل گئے اور دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا یہ وہ مسئلہ ہے جس کا ٹرمپ نے خود اعتراف کیا ہے- ٹرمپ، جنوری دوہزار سولہ میں سابق امریکی صدر اوباما اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن پر داعش کو جنم دینے کے سلسلے میں تنقید کرچکے ہیں- ٹرمپ نے کہا تھا کہ کلنٹن اور اوباما نے داعش کو جنم دیا- اس کے مقابلے میں ایران نے ، ایک ایسے ملک کی حیثیت سے جو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا ہے ، دہشتگردی کے خلاف جدوجہد شروع کی اور عراق و شام میں سرگرم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشتگرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بغداد و دمشق کی درخواست پر ان کی مشاورتی مدد کی جس کی امریکی ، اسرائیلی اور سعودی محور ہمیشہ مخالفت کرتے رہے ہیں- 

       

ٹیگس