ایران کے سلسلے میں واشنگٹن بوکھلاہٹ کا شکار
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے توسط سے امریکی ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد، ایران کے تعلق سے امریکی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ تین دنوں میں ایران کے سلسلے میں متعدد دعوے کئے ہیں- جن میں سے ایران پرحملہ کرنے کے ارادے سے لے کر، ایران کے خلاف پابندیاں اٹھالئے جانے تک کے دعوے شامل ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی صدر ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کی آمادگی کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی، کل یعنی پیر کے روز ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کرنا چاہتے ہیں-
ٹرمپ کے ان متضاد بیانات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وائٹ ہاؤس ایران کے تعلق سے خاص طور پر امریکی ڈرون طیارے کے مار گرائے جانے کے بارے میں جواب دہی کے لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے، اور اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا ہے- گذشتہ مہینوں کے دوران کہ جب ٹرمپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے لئے ایران پر دباؤ بڑھایا تھا تو اس وقت وہ خیال کر رہا تھا کہ آخرکار اسلامی جمہوریہ ایران واشنگٹن کی جانب سے مذاکرات کے مطالبے کو تسلیم کرلے گا لیکن جب جاپان کے وزیر اعظم کے توسط سے ٹرمپ کا لایا ہوا پیغام رہبر انقلاب اسلامی نے قبول نہیں کیا اور اسے مسترد کردیا تو امریکی انتظامیہ میں ایک بھونچال آگیا-
امریکی حکام حکام خاص طور پر ٹرمپ یہ خیال کر رہے تھے کہ ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچاکر اور چند مہینوں تک زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر ایران کو آخرکار ایٹمی سمجھوتے اور غیر ایٹمی مسائل کے سلسلے میں مذاکرات پر مجبور کردیں گے- جبکہ امریکی یہ خواہش نہ صرف یہ کہ عملی نہ ہو سکی بلکہ ایران نے انتہائی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی ڈرون طیارے کو ایران کی فضائی حدود میں مار گرایا- اس اقدام نے ٹرمپ کو دوراہے پر لا کھڑا کہ یا جنگ کریں یا اسی صورتحال کو جاری رکھیں- پہلے تو ٹرمپ نے حملے کا حکم جاری کردیا اور بعض میڈیا ذرائع نے تو یہاں تک اعلان کردیا کہ امریکہ کے جنگی طیارے ایران پر حملے کے لئے آمادہ ہوچکے تھے- لیکن ایران کے سخت ردعمل سے ٹرمپ کو لاحق تشویش، کہ جس سے پورا علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا تھا، اس بات کا سبب بنا کہ ٹرمپ نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا- ٹرمپ نے ، ڈرون طیارہ مار گرانے کے وقت، اسی کے ساتھ چل رہے ایک اور امریکی جاسوس طیارے کو کہ جس میں افراد سوار تھے، اسے نہ مارنے پر، ایرانیوں کا شکریہ ادا کیا اور ان سے مصالحانہ انداز اپنایا -
خیال رہے کہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایرو اسپیس ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل امیرعلی حاجی زادہ نے تہران میں نامہ نگاروں کو ایران کی سمندری حدود میں مارگرائے جانے والے امریکا کے ڈرون طیارے کے ملبے اور ٹکڑے دکھانے کے موقع پر کہا کہ جس وقت امریکا کا گلوبل ہاک ڈرون طیارہ نشانہ بنا، اسی وقت پی آٹھ نامی ایک اور جاسوس طیارہ اسی کے قریب اور ساتھ ساتھ پرواز کررہا تھا جس میں تقریبا پیتنیس افراد سوار تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اس طیارے کو بھی گرا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا۔بریگیڈیر جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ امریکا کے اس ڈرون طیارے کو مارگرانے کا مقصد امریکا کی دہشت گرد فوجوں کو خبردار کرنا تھا۔
اس وقت ایران مخالف طاقتور لابی اور جنگ پسند عناصر امریکہ کے اندر اور باہر ٹرمپ کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ امریکہ کی حیثیت اور ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے سبب ایران کے خلاف جنگ کا آپشن میرز پر رکھیں-
ساتھ ہی امریکہ ، کہ جس نے ایران کے ساتھ فوجی مقابلہ آرائی کو بہت سنگین اخراجات والی اور خطرناک جنگ بتایا ہے، ایک بار پھر ایران کے خلاف اقتصادی جنگ میں، پابندیوں کے ہی ہتھکنڈے کو استعمال کیا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکیوں نے تیل اور بینکنگ کے خلاف پابندیاں عائد کرکے تقریبا ایران کے تمام اقتصادی شعبوں کا بائیکاٹ کردیا ہے اس لئے اب نئی پابندیوں سے موجودہ صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوگی- اس بنا پر ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ، تہران کے لئے کسی پیغام کا حامل ہونے سے زیادہ ، ان امریکی جنگ پسندوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا کہ جو امریکہ اور علاقے میں اس کے اتحادی کی حیثیت سے ایران مخالف اقدامات میں انجام دے رہے ہیں اور جو ایران کے دلیر و شجاع جوانوں کے توسط سے امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے سے حیرت اور خوف میں مبتلا ہیں-
اسی سبب سے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے ڈموکریٹ نامزد امیدوار ٹولسی گیببرڈ Tulsi Gabbard نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے بارے میں تمہاری اسٹریٹیجی خام اور کوتاہ نظری کی علامت ہے- اپنے رویے کو ابھی سے تبدیل کرو - اور قبل اس کے دیر ہوجائے، ایران کے ایٹمی سمجھوتے کو پھر سے بحال کرکے اس میں شامل ہوجاؤ-