ایران کے خلاف امریکہ کی نئی پابندیاں، نا امیدی اور بے بسی کی علامت
امریکہ نے آٹھ مئی 2018 کو ایٹمی معاہدے سے خارج ہونے کے اعلان کے بعد ہی، ایران کے خلاف نئی ایٹمی پابندیاں عائد کردی تھیں-
ان پابندیوں کے عائد کرنے کے باوجود، کہ جو امریکیوں کے بقول تاریخ کی سب سے بدترین اور سخت ترین پابندیاں ہیں، ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے تحت واشنگٹن بدستور ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے- اسی سلسلے میں امریکہ نے بے بنیاد بہانے کرتے ہوئے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کردی ہیں- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر چوبیس جون کو ایک فرمان پر دستخط کر کے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا حکم جاری کیا ہے کہ جس کے بموجب تہران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں گی اور اس میں رہبر انقلاب اسلامی کا دفتر بھی شامل ہے-
ٹرمپ نے اپنا فرمان کے جاری کرنے کے موقع پر کہا کہ یہ سخت ترین پابندیاں ہیں کہ جو کسی ملک کے خلاف عائد کی جا رہیں ہیں- امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یہ پابندیاں امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے کے ردعمل میں عائد کی گئی ہیں- ٹرمپ، ایران کے خلاف اپنی دوغلی اور متضاد پالیسیوں کے دائرے میں اس بات کا دعوی کر رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا بلکہ تہران کے ساتھ ایک جامع سمجھوتے کا خواہاں ہے-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے بے نتیجہ ہونے، اور مذاکرات کے لئے واشنگٹن کی بارہا درخواستوں پر تہران کا منفی جواب، اور ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے سبب گلوبل ہاوک ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کے ساتھ ہی، امریکہ کی فوجی ساکھ ملیامیٹ ہوگئی ہے اور مجموعی طور پر یہی امر اس بات باعث بنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام، ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے اپنے زعم ناقص میں ایران کے خلاف نام نہاد سخت ترین پابندیاں عائد کردی ہیں- ٹرمپ اپنا غصہ ایران کے ان اداروں یا حکام پر اتارنا چاہتا ہے کہ جن پر یا تو پہلے سے پابندیاں عائد ہیں یا ان پرعائد کی جائیں گی-
اسی سلسلے میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوچین نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ نئی پابندیوں سے ایران کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہوجائیں گے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دفتر اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے 8 کمانڈروں من جملہ سپاہ کی بحریہ کے کمانڈر جنرل تنگسیری، سپاہ کی بری فوج کے سربراہ جنرل محمد پاکپور اور سپاہ کی فضائیہ کے سربراہ جنرل امیرعلی حاجی زاده پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں- منوچین نے دعوی کیا کہ ان کمانڈروں کے علاوہ بحریہ کے پانچ دیگر کمانڈرز بھی آبنائے ہرمز کو بند کرنے ، امریکی ڈرون طیارہ مار گرانے اور شام میں ایرانی فوج کی موجودگی کے سبب پابندی کے زمرے میں آتے ہیں- اس مسئلے سے اس امر کی نشاہدہی ہوتی ہے کہ امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے کا ایران کا مقتدرانہ اور ٹھوس اقدام ، امریکہ کی حیثیت اور ساکھ کو نابود کرنے اور ایران سے فوجی مقابلے کے تعلق سے اس کے دعووں کے کھوکھلا ہونے کو ثابت کردیتا ہے-
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے قائد انقلاب اسلامی اور ان کے دفتر کے افراد پر پابندی عائد کی ہے اور یہ مسئلہ بھی اس امر کا غماز ہے کہ حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کرنے کا ٹھوس موقف، کس حد تک ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے لئے مایوس کن اور بے بسی کا آئینہ دار ہے- ٹرمپ انتظامیہ کو توقع تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ سے دباؤ ڈآلنے کی پالیسی کے ذریعے، ایران کو مذاکرات کی میز تک کھینچ لائیں گے اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے بارہ مطالبات کے دائرے میں تہران کو، ان مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں گے- تاہم رہبر انقلاب اسلامی کے واضح موقف نے ، واشنگٹن پر یہ ثابت کردیا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا-
امریکی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ایران اگر مذاکرات کرے گا تو یہ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی - جبکہ حققیت تو یہ ہے امریکہ کے مدنظر مذاکرات کو قبول کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے توسیع پسندانہ مطالبات کے سامنے، ایران بلا قید و شرط تسلیم ہوجائے-
ایک اور اہم نکتہ امریکہ کی نئی پابندیوں کے حوالے سے یہ ہے کہ واشنگٹن مکمل طور پر بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور سفارتی آداب کے برخلاف، ایران کے وزیر خارجہ پر بھی پابندی عائد کرنے کے درپے ہے اور امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوچین نےآئندہ ہفتہ سے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پر بھی پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
سی این این چینل کے عالمی امور کے تجزیہ نگار میشل کوزینسکی نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں پر ردعمل میں کہا کہ ظریف جسے ایک اعلی سفارتکار کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اقدام، عملی طور پر ہر قسم کی سفارتکاری کے عمل کو نابود کردے گا- ٹرمپ انتظامیہ اپنے زعم ناقص میں، ڈاکٹر جواد ظریف پر پابندی عائد کرنے کے ذریعے ان کو، ملکوں کے دوروں اور بین الاقوامی اداروں کے اعلی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے سے روکنے کے درپے ہے- تاکہ اس طرح سے ایران کے حق پسندانہ مواقف سے لوگ واقف نہ ہوسکیں اور واشنگٹن کے غیر انسانی اور غیر قانونی اقدامات برملا نہ ہوسکیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے منگل کے روز امریکہ کی نئی پابندیوں کے بارے میں کہا کہ کیا واقعا کوئی ایسی پابندی ہے کہ جو امریکہ نے گذشتہ چالیس برسوں کے دوران نہ لگائی ہو؟ سوال یہ ہے کہ اس کو ان پابندیوں سے کیا حاصل ہوا ہے، انہوں نے کہا امریکہ اپنے اس اقدام سے تمام سفارتی راستوں کو ہمیشہ کیلئے بند کرنا چاہتا ہے۔