ویانا اجلاس ، اور یورپ کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت
ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے مقصد سے عملی اقدامات انجام دینے کے لئے، یورپی ملکوں کو ایران کی جانب سے دی گئی ساٹھ روزہ مہلت کے اختتام کے نزدیک ہونے کے ساتھ ہی، سیاسی و اقتصادی دباؤ کے باوجود ایران، سفارتکاری کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی مفادات کے حصول میں کوشاں ہے-
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے انعقاد سے قبل، کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد اس میں باقی رہ جانے والے ملکوں نے تلافی کے لئے، ایران کے لئے کچھ نہیں کیا ہے- آٹھ مئی 2018 کو جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کا اعلان کیا تھا تو یورپی ملکوں نے ایران کے ساتھ رابطہ قائم کرکے تہران سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ ایٹمی معاہدے میں باقی رہے تاکہ عالمی سفارتکاری کا بھرم باقی رہے- آج ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہاہے کہ ایرانی سفارتکاری اور تہران کی نیک نیتی کو آزمایا جا رہا ہے لیکن یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے میں صرف ایران کے باقی رہنے پر ہی زور دیاہے اور ایٹمی معاہدے میں اور اس کے بعد کئے گئے، اپنے کسی بھی وعدے کو عملی جامہ نہیں پہنایا ہے -
ایران کے صبر وتحمل کے باوجود، ابھی تک ایٹمی معاہدے سے تہران کے مفادات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے- اسی بنیاد پر ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے ایک سال کے بعد اس معاہدے کی دو شقوں پرعملد آمد کو روک دیاہے- ایران کا یہ اقدام ایک ایسا میکانزم ہے کہ جو خود ایٹمی معاہدے میں، اس معاہدے کے فریق ملکوں کی جانب سے مد نظر قرار دیا گیا ہے چنانچہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں پر عملدرآمد روک دینا ، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے-
ایسے حالات میں یورپی ملکوں کی جانب سے ایران پر یہ دباؤ کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرتا رہے، ایک غیر منطقی مطالبہ ہے اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوتاہی، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہے- اسی سلسلے میں اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے مجید تخت روانچی نے جمعرات کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد یورپی ملکوں کی جانب سے کوتاہیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ان ملکوں کو جنہوں نے ایٹمی معاہدے پر تعمیری اور مکمل طور پر عملدرآمد کا وعدہ کیا ہے، ان کو چاہئے کہ اپنے وعدوں پر عمل کریں-
ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے سلسلے میں ان دنوں یورپی ملکوں نے جو موقف اپنا رکھا ہے اس سے اس معاہدے کو باقی رکھنے کے سلسلے میں، کسی سنجیدہ کوشش کی علامت نظر نہیں آرہی ہے-اور ایٹمی معاہدے کے یورپی فریق ممالک اس وقت امریکہ کی ایران مخالف پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اور ایسے حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران ، یورپ کے دباؤ میں آکر، یکطرفہ طور پر ایٹمی معاہدے کی پابندی نہیں کرسکتا ہے- اسی سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعرات کو ، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے نام ایک مراسلے میں ،یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عمل کرنے میں لیت و لعل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ایٹمی معاہدے کے بعض وعدوں پر کلی یا جزئی طور پر عملدرآمد روک دینا ایران کا حق ہے-
بلاشبہ، جمعے کے روز ہونے والے ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں اگر یورپی ممالک عملی اقدامات انجام نہیں دیتے تو ایران آٹھ جولائی 2019 کو ، ایٹمی معاہدوں میں کئے گئے بعض دیگر وعدوں پر عملدر آمد روک دینے کے لئے، دوسرا ٹھوس قدم اٹھائے گا- یورپی ملکوں کا کوئی بھی اقدام، منجملہ اینسٹیکس سے موسوم مالی میکانزم کو عملی جامہ پہنائے جانے کا عمل، ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر ایران کے اقتصادی مفادات کی تکمیل کے لئے ہو،بصورت دیگرایٹمی معاہدے کی ناکامی یا اس کے نابود ہونے کی ذمہ داری، اس عالمی سمجھوتے کے دیگر فریقوں خاص طور پر یورپیوں پر عائد ہوگی-