Jul ۲۴, ۲۰۱۹ ۰۱:۵۹ Asia/Tehran
  • برطانیہ کی بوکھلاہٹ

برطانیہ نے امریکہ کے اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر ایران کے خلاف ہمیشہ امریکی پالیسیوں کے مطابق عمل  کیا ہے لیکن اب خود مشکل میں پھنسا ہے تو امریکی مدد کی اُسے امید نظر نہیں آتی۔ 19جولائی کو ایران نے آبنائے ہُرمُز میں برطانوی تیل بردار بحری جہاز کو روک لیا تھا جس کے بعد برطانیہ بوکھلا گیا ہے اور پریشانی کے عالم میں ہے نیز اب اُسے اس سلسلہ میں امریکی مدد کی بھی امید نظر نہیں آتی۔

اسی سلسلہ میں برطانوی وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے برطانوی تیل بردار بحری جہاز کو ایران کے ذریعہ روکے جانے کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں دارالعوام کی 22/ جولائی کو منقعدہ ہنگامی میٹنگ میں اپنے تیل بردار جہاز اور اس کے عملہ کو چھوڑے جانے کی درخواست کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی قوانین کی رُو سے ایران کو اس جہاز کو روکنے یا اُس پر سوار ہونے کا حق نہیں ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانوی تیل بردار جہاز ”اسٹینا امپیرو“ نے آبنائے ہُرمُز میں بین الاقوامی جہازرانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایران نے اس سلسلہ میں واضح کیا ہے کہ برطانوی تیل بردار جہاز نے آبنائے ہرمز سے گزرتے وقت کئی بڑی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ پہلی خلاف ورزی؛ برطانوی تیل بردار جہاز اس بین الاقوامی آبی گزرگاہ میں داخل ہونے والے راستے کے بجائے عمان کی طرف سے باہر نکلنے والے راستے کے ذریعہ خلیج فارس میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ برطانوی تیل ٹینکر نے جی پی ایس سمیت بحری جہازوں میں موجود رہنے والے آلات کو بھی بند کردیا تھا تاکہ اس کی شناخت نہ ہوسکے۔ یہ برطانوی تیل ٹینکر سمندر کے پانی میں آلودگی کا بھی سبب بنا تھا۔ برطانوی تیل بردار جہاز نے ایران کی ماہی گیری کی ایک کشتی کو ٹکر بھی ماری لیکن اس حادثہ پر توجہ دیئے بغیر اپنے راستہ پر چلتا رہا۔ بنا بریں، ایران کو، جو آبنائے ہرمز کے شمال میں واقع ہے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق برطانوی تیل بردار جہاز کو روکنے کا پورا حق حاصل تھا۔

ایک دیکر مسئلہ جو برطانوی وزیر خارجہ نے پیش کیا وہ آبنائے ہرمز میں جہازوں کی آمد و رفت کا تحفظ اور اس سلسلہ میں ایک بحری اتحاد کی تشکیل کا مسئلہ تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے دعویٰ کیا کہ "آبنائے ہرمز میں آمد و رفت کے تحفظ کے بارے میں امریکہ نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور اس سلسلہ میں یورپی اتحادیوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔"

جرمی ہنٹ کے دعوے کے برخلاف بحری اتحاد کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ،  کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کو اس سلسلہ میں امریکہ کی طرف سے برطانیہ کی ہمہ جانبہ حمایت کی امید کے باوجود امریکی موقف سے لگتا ہے کہ برطانوی حکام کو اس سلسلہ میں ٹرمپ حکومت کی طرف سے حمایت کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے آبنائے ہرمز میں برطانوی تیل بردار جہاز کو روکے جانے کے بارے میں فاکس نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ برطانیہ اپنے جہازوں کی سیکورٹی کا خود ذمہ دار ہے اور کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بحرین میں برطانوی بحری اڈا اور وہاں کشتیوں کی موجودگی نیز خلیج فارس میں برطانوی کشتیوں کے گشت لگاتے رہنے کے باوجود خلیج فارس میں برطانوی تیل بردار اور مسافر بردار جہازوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے وہ ان سب کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے اور یہ برطانوی بحریہ کی کمزوری کی علامت ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئیٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں برطانوی بحریہ کے کمزور نکات کی طرف اشادہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”برطانوی تیل ٹینکر کو روکنے سے ایران کی سپاہ پاسداران نقلاب اسلامی کو باز رکھنے میں برطانیہ کی شکست برطانوی بحریہ کی کمزوری کی علامت ہے جو کسی زمانہ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔“        

آخری بات؛ یہ کہ آبنائے ہرمز میں برطانوی تیل ٹینکر کو روکنے کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اقدام کے برخلاف، جو کہ پوری طرح سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق انجام پایا ہے، برطانوی بحریہ نے آبنائے جبل الطاق میں گریس-1 نامی ایرانی تیل بردار جہاز 4/ جولائی کو غیرقانونی طریقہ سے روک لیا اور اس کی وجہ شام  پرعائد یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی قرار دی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پابندیاں یک طرفہ طور پر لگائی گئی ہیں اور ایران اُن پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔

ٹیگس