Jul ۲۴, ۲۰۱۹ ۱۴:۳۹ Asia/Tehran
  • امریکی صدر کے توہین آمیز بیان پر افغانستان کا رد عمل

افغان ایوانِ صدارت نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے رد عمل میں کہا ہے کہ افغانستان  اپنی پوری تاریخ میں متعدد بحرانوں سے گزرا ہے اور اُس نے کسی بھی بیرونی طاقت کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ دے گا۔

افغانستان کے ایوانِ صدارت نے ایک بیان جاری کر کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران امریکی صدر کے بیان کے بارے میں وضاحت کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی دو دن پہلے واشنگٹن میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ”وہ جنگِ افغانستان کو ایک ہفتہ میں ختم اور افغانستان کو دنیا کے نقشہ سے مٹا سکتے ہیں لیکن وہ یہ کام نہیں کریں گے کیونکہ ایک کروڑ افراد مارے جائیں گے۔“

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہفتہ میں جنگِ افغانستان ختم کرنے کی یہ لاف زنی ایسے حالات میں کی ہے کہ امریکہ 18 سال سے افغانستان کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اُس نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ بھی کئے ہیں نیز امریکہ جدید ترین فوجی ساز و سامان استعمال کرکے بھی افغانستان کی جنگ میں شکست سے خود کو نہیں بچا سکا ہے۔ امریکہ اِس واضح شکست کے باوجود بھی حقائق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ امریکی حکام افغانستان کو ایک پست ملک سمجھتے ہیں اور افغانستان کے بارے میں توہین آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا میں افغان امور کے ماہر راحل موسوی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ”اس سے پہلے بھی متعدد بار مختلف مقامات پر ٹرمپ کی سامراجی ماہیت کا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن انہوں نے افغانستان کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ غیر امریکی حکومتوں اور لوگوں کے بارے میں امریکی صدر کی حیثیت سے اُن کی پہلے والی باتوں سے زیادہ توہین آمیز ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ تکبرانہ اور آمرانہ طریقہ سے یہ بیہودہ بات کہی ہے جو مروجہ سفارتی آداب و اصول  کے بھی مطابق نہیں ہے اور افغانستان سے متعلق حقائق سے بھی دور ہے۔“ 

امریکی صدر نے ایسے حالات میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے دلدل میں پھنسنے اور جنگِ افغانستان امریکہ کی جنگی تاریخ کی سب سے طویل جنگ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ٹرمپ حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ اقدام اُس صدر نے انجام دیا ہے جو اپنی صدارت کی شروعات میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کو بحرانِ افغانستان کی راہِ حل سمجھتا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات کا امریکہ کا اقدام، وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب امریکہ کو اپنے کسی بھی ہدف میں کامیابی نہیں ملی ہے، افغانستان میں امریکی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

راحل موسوی مزید کہتے ہیں کہ ”سیاسی تجزیہ کاروں کا متفقہ طور پر یہ کہنا ہے کہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے نام سے جو ہو رہا ہے وہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے  کہ امریکہ آبرومندانہ طریقہ سے افغانستان کے دلدل سے نجات حاصل کرلے۔“

دوسری طرف افغانستان پر امریکی قبضہ کے 18 سال بعد امریکی صدر کی طرف سے اس طرح کی  بیہودہ بات سے افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں واشنگٹن کی ناکامی سے امریکی حکام کی شدید برہمی کی غمازی ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے حالات میں دنیا کے نقشے سے افغانستان کو مٹانے کی بات کہی ہے کہ کم سے کم وسائل کی مدد سے ہی افغان عوام نے اب تک کئی بڑی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ امریکہ سے پہلے سوویت یونین اور اس سے بھی پہلے برطانیہ افغانستان سے  بےآبرو ہوکر نکلا ہے۔

افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس طرح کے بیان کا ایک مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور امریکی حکام کے نزدیک افغانستان اور اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی بِنا پر افغان عوام کو امریکی سازشوں، خاص طور سے طالبان اور امریکہ کے مذاکرات، کے بارے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور افغان عوام بیرونی طاقتوں کو افغانستان اور افغان عوام کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔

 

ٹیگس