Jul ۲۹, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۴ Asia/Tehran
  • ویانا میں ایٹمی سمجھوتہ کمیشن کا ہنگامی اجلاس

فرانس ، برطانیہ ، جرمنی اور ایران کی درخواست پر ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کا ہنگامی اجلاس اٹھائیس جولائی کو ویانا میں منعقد ہوا اجلاس کی سربراہی سید عباس عراقچی اور یورپی یونین کی نمائندہ ہلگا اشمتھ نے کی-

اس ہنگامی اجلاس میں سابقہ اجلاس میں انجام پانے والے اتفاق رائے اور ہم آہنگیوں نیز ان میں ہونے والی پیشرفت کے عمل کا جائزہ لیا گیا-

 سید عباس عراقچی نے اتوار کو ویانا میں ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اس وقت تک ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد میں کمی کا سلسلہ جاری رکھے گا جب تک اس کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے گا-

 اس کمیشن کا سابقہ اجلاس اٹھائیس جون کو وزارت خارجہ کے سیاسی شعبے کے ڈائریکٹروں کی سطح پر ویانا میں ایسے عالم میں منعقد ہوا تھا کہ ایران نے یورپی فریقوں کی پے درپے وعدہ خلافیوں پر ردعمل میں معاہدے کی کچھ شقوں پر عمل درآمد روک دیا تھا-

 ایران نے سات جولائی کو ایمٹی سمجھوتے پر عمل درآمد کے لئے یورپ کو دی جانے والی ساٹھ دنوں کی مہلت ختم ہونے کے بعد پہلا قدم اٹھاتے ہوئے یورے نیم کی افزودگی اور بھاری پانی کی پیداوار سے متعلق شرائط کو مسترد اور تین اعشاریہ چھے سات فیصد یورے نیم کی افزودگی کی سطح کو پار کرلیا-

ایٹمی سمجھوتے کی چھبیسویں اور چھتیسویں شقوں کی بنیاد پر  فریق مقابل کی جانب سے معاہدے کی پابندی نہ کئے جانے کی صورت میں ایران کو بھی پوری طرح یا جزئی طور پر معاہدوں پر عمل درآمد روکنے کا حق ہوگا-

 اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کمیشن کے ترجمان سید حسین نقوی حسینی نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ : اگر یورپ کے تین ممالک جرمنی ، برطانیہ اور فرانس نے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے سلسلے میں اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی اگلا قدم اٹھائے گا-

قومی سلامتی کمیشن کے ترجمان نے یورپ کو دی گئی دوسری ساٹھ روزہ مہلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ : سینٹری فیوجز کی تعداد میں اضافہ ، آئی آر ٹو اور آئی آر ٹو ایم سینٹری فیوجز کی دوبارہ تنصیب ، افزودگی کے لئے استعمال ہونے والے سینٹری فیوج کی تعداد میں اضافہ ، بیس فیصد افزودگی اور اراک ہیوی واٹر کی تقویت، تیسرے قدم میں مد نظرآپشن ہیں-

 ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپیوں خاص طور سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایٹمی سمجھوتے کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا اور ایران سے ایٹمی سمجھوتے میں باقی رہنے کی اپیل کی- ایران نے معاہدے پر پوری طرح عمل کیا اور ایٹمی انرجی کی بین الاقوامی ایجنسی کی پندرہ رپورٹوں میں بھی اس کی تصدیق کی گئی ہے- لیکن یہ عمل اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوگا جب دوطرفہ ہو- یورپی ایسے عالم میں ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کا دعوی کررہے ہیں کہ انسٹیکس نامی ان کا کڑوا طنز ، ایران کا ذرہ برابر مفادات بھی پورا نہیں کرتا-

یورپ نے اس بین الاقوامی سمجھوتے کو باقی رکھنے کے لئے کچھ طریقہ کار پیش کئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد میں پس و پیش کا شکار ہے- اس بنا پر اس کام کی گانٹھ  یورپ کے ہاتھوں ہی کھل سکتی ہے-

امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے تحقیقاتی مرکز کے سربراہ جان ٹیرمن کا خیال ہے کہ : یورپ امریکہ کے سامنے اپنے معاہدوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کمزور ہے بنا بریں یورپ کی جانب سے کوئی خاص توقع نہیں رکھنا چاہئے-

 یورپ نے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد ایران سے گیارہ وعدے کئے جن میں سرمایہ کاری ، نقل و حمل ، تیل کی فروخت اور دیگر چیزیں شامل ہیں اور انسٹیکس یورپ کے وعدوں پرعمل درآمد کا ایک مقدمہ ہے-

مسلمہ امر یہ ہے کہ ان وعدوں کے پیش نظرایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے لئے یورپی یونین کی جانب سے فعال کردار ادا کیا جانا ضروری ہے- ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اس سلسلے میں اپنے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ ہم اپنے وعدوں پر اسی طرح عمل کریں گے جس طرح یورپ کرے گا-

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹرحسن روحانی نے بھی ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی شقوں پر عمل درآمد میں کمی سے پہلے پانچ یورپی ممالک کے سربراہوں کے نام خط بھیج کر اور ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ : ایران کا معاہدوں کی شقوں پر عمل درآمد میں کمی لانے کا مقصد ایٹمی سمجھوتے کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ایٹمی سمجھوتے کا تحفظ ہے کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم کوئی اقدام نہیں کریں گے تو ایٹمی سمجھوتہ ختم ہوجائے گا- 

اب دیکھنا یہ ہے کہ ویانا میں اتوار کو ہونے والا صلاح و مشورہ، ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے آخری مواقع سے وابستہ توقعات کس حد تک پورا کرسکتا ہے-

ٹیگس