سفارتخانے تل ابیب منتقل کرنے کے لئے ممالک کو رشوت
امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل ہونے کے پندرہ مہینے بعد بھی بیت المقدس کو صیہونی دارالحکومت قرار دینے کی امریکی و صیہونی سازش کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اس سازش کو ناکامی سے بچانے کے لئے اب صیہونی حکومت نے رشوت کا سہارا لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دسمبر دوہزار سترہ میں ایک غیرقانونی فیصلے کے تحت بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت اعلان کیا- ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیں گے جس پرمئی دوہزار اٹھارہ میں ان کی بیٹی ایوانکا کی موجودگی میں عمل درآمد بھی ہوا- امریکی و صیہونی حکومت کو توقع تھی کہ دیگر ممالک بھی اس اقدام کی پیروی کریں گے تاہم اب تک کسی بھی ملک نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں کیا- اگرچہ ہنڈوراس ، گواٹمالا، رومانیہ اور برازیل نے اپنے سفارتخانے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب تک ان ملکوں نے اس پرعمل درآمد نہیں کیا ہے-
ان حالات کے پیش نظر سفارتخانوں کو بیت المقدس منتقل کرنے اور بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے منصوبے کو ناکامی کا سامنا ہے- اسی بنا پر اب صیہونی حکومت نے ملکوں کو رشوت دینے کی روش اختیار کی ہے اور وہ ان ممالک کو جو اپنے سفارتخانے شہر بیت المقدس منتقل کریں گے مالی رشوت دینا چاہتی ہے-
فلسطین الیوم نیوز ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیرخارجہ یسرائیل کاتس نے سفارتخانوں کو بیت المقدس منتقل کرنے کے لئے تقریبا چودہ ملین دولاکھ ڈالر کا ترغیبی تحفہ دینے کی پیشکش کی ہے-
خبری ذرائع کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت ان ممالک کو جو اپنے سفارتخانے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کریں گے انھیں نقد تحفہ کے ساتھ ہی مناسب زمین بھی دے گی-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں دنیا کے دیگر ممالک نے بیت المقدس کے بارے میں امریکی منصوبے کا خیرمقدم نہیں کیا اور صیہونی حکومت کو لالچ و رشوت دینے کی پیش کش کرنا پڑی ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ بنیادی طور پر ایک غیرقانونی فیصلہ ہے اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے تضاد رکھتا ہے-
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بیت المقدس نہ صرف اسرائیل کے حوالے نہیں کیا گیا ہے بلکہ قرارداد چارسواٹھتر میں ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سفارتخانے بیت المقدس میں قائم نہ کریں-
سلامتی کونسل مجموعی طور پر بیت المقدس کے بارے میں اب تک آٹھ قراردادیں منظور کرچکی ہے جن میں قرارداد ایک سوپچاسی ، دوسوپچاس ، دوسواکاون ، دوسوباون ، دوسوسڑسٹھ ، دوسواکھتر، بائیس ترپن اور بائیس چون شامل ہے-
اقوام متحدہ نے ان قراردادوں میں بیت المقدس کی سیکورٹی اور نظم و نسق نیز اس شہر کے مقدس مقامات کی حفاظت اور ان مقامات پر صیہونی حکومت کی پریڈ سے اجتناب پر تاکید کی ہے-
ٹرمپ کا اقدام سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کی مخالفت پر مبنی تھا اور اس کا کسی بھی ملک نے خیرمقدم نہیں کیا- دوسری وجہ بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے پر ملکوں کا فوری ردعمل ہے - اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اکیس دسمبر دوہزارسترہ کو بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کئے جانے کے یکطرفہ اقدام کے خلاف ایک قرارداد کو منظوری دی تھی - اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے پیش نظر بیت المقدس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو غیرقانونی اعلان کیا تھا-
اور اس کی تیسری وجہ فلسطینی عوام کے حق واپسی مارچ کا انعقاد ہے جو مارچ دوہزار اٹھارہ سے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف شروع ہوا اور تین سو دس سے زیادہ مظاہرین کے شہید اور اکتیس ہزار کے زخمی ہونے کے باوجود اب تک جاری ہے-
ان مظاہروں میں ٹرمپ کے فیصلے کی بھرپور مخالفت کے ساتھ ہی دوسرے ممالک کے لئے بھی یہ پیغام ہے کہ اگر ان کے سفارتخانے تل ابیب سے بیت المقدس منتقل ہوئے تو وہ ایک قسم سے اسرائیل کی جغرافیائی جارحیت کو جواز فراہم کریں گے اور وہ فلسطینی عوام کے غصے سے محفوظ نہیں رہیں گے-
ان حالات و وجوہات کے پیش نظر اب تک کسی بھی ملک نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل نہیں کیا اور بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے منصوبے کو ناکامی کا سامنا ہے اور صیہونی حکومت اس ناکامی سے بچنے کے لئے رشوت دینے پر بھی تیار ہے-