Jul ۳۰, ۲۰۱۹ ۱۴:۴۶ Asia/Tehran
  • خلیج فارس کی سیکورٹی کے بارے میں روس کا منصوبہ

روس نے خلیج فارس سے متعلق سیکورٹی کا منصوبہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا ہے۔

خلیج فارس کے علاقے میں غیرعلاقائی ممالک کی فوجی موجودگی علاقے میں منفی اثرات اور فوجی و سیاسی کشیدگی میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ اسی صورت حال کے پیشِ نظر روسی وزارت خارجہ نے جغرافیائی، سیاسی اور فوجی لحاظ سے اس اہم علاقے کی  سیکورٹی کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔

روس کے معاون وزیر خارجہ میخائیل بوگ دانوف نے خلیج فارس کے باہمی تعاون کی بنیاد پر سیکورٹی کا منصوبہ ماسکو میں موجود غیرملکی سفارت کاروں کو پیش کیا۔ یہ اہم منصوبہ گزشتہ منگل کو غیرملکی سفارت کاروں کو پیش کیا گیا اور 29 جولائی کو اقوام متحدہ میں جاری ہوا۔ اس منصوبے میں بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل پابندی، چند قطبی نظام اور قدم بہ قدم طریقۂ کار جیسے اقدامات پر تاکید کی گئی ہے۔  ماسکو نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اس منصوبے کا اسٹریٹیجک مقصد خطے کے تمام ممالک کی یکساں مشارکت سے خلیج فارس کے علاقے میں تعاون اور سیکورٹی کا میکینزم تیار کرنا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس منصوبے کے مسودے میں چند فریقی مذاکرات کی بنیاد پر صلاح و مشورے اور خلیج فارس کے علاقے میں تعاون اور سیکورٹی کے سلسلے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی راہ ہموار کرنے کے لئے ایک جدت پسندانہ گروپ کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ منصوبے کے مطابق یہ بین الاقوامی کانفرنس سیکورٹی نظام اور اس کے لئے ضروری اقدامات سے متعلق مفاہمت پر منتج ہوگا ۔

روس کے مجوزہ اقدامات میں علاقے کے ممالک کے سیاسی اور فوجی عہدیداروں اور ماہرین کے مابین مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے، فوجی پروازوں، کارروائیوں اور مشقوں کی انجام دہی کے سلسلے میں ہم آہنگی، فریقین کے فوجی اسلحے سے واقفیت اور غیرخفیہ تنصیبات تک معائنہ کاروں کی رسائی، خلیج فارس میں غیر علاقائی ممالک کے فوجی گروپوں کی تعیناتی سے پرہیز اور مجموعی طور پر اس خطے میں غیرملکی فوجیوں کی تعداد میں کمی شامل ہے۔

امریکہ ایرانو فوبیا کو ہوا دے کر غیرعلاقائی مداخلت پسند ایک طاقت کی حیثیت سے اپنی موجودگی اور علاقائی اتحادوں کی تشکیل کے درپے ہے جبکہ روس ایران کے خلاف امریکی الزامات کے مقابل ایران کے بارے میں حامیانہ نظریات کا حامل ہے نیز روس ایران مخالف امریکی الزامات کو علاقے میں بدامنی کا سبب بھی قرار دیتا ہے۔

ادھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 24 جولائی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”میں ایران کو ایک ایسا ملک سمجھتا ہوں جس کے بغیر علاقے کے بہت سے مسائل حل نہیں ہوسکتے، ایسا ملک نہیں جسے اصل اقدامات  کا قصوروار ٹھہرایا جائے۔“ امریکہ نے موجودہ حالات میں زیادہ سے زیادہ دباؤ کی اپنی پالیسی کے تحت خلیج فارس اور مغربی ایشیا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کردیا ہے اور ایران کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات انجام دے رہا ہے۔ یہی نہیں امریکہ نے خلیج فارس میں امن و استحکام کے قیام کے لئے ہر علاقائی اقدام کی راہ میں ہمیشہ مشکلات بھی کھڑی کی ہے۔

اسلامی جمہوریۂ ایران نے علاقائی ممالک کے تعاون سے علاقے کی سیکورٹی برقرار رکھنے اور بات چیت کے ذریعہ علاقائی مسائل کے حل کی ضرورت پر بارہا تاکید کی ہے اور اس سلسلے میں تجاویز اور منصوبے بھی پیش کئے ہیں۔ ان تجاویز اور منصوبوں کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ خلیج فارس کے علاقے میں سیکورٹی اسی علاقے کے تمام ممالک کی مشارکت سے قائم ہوسکتی ہے نیز غیرملکی مداخلت کے بغیر علاقے کی پائیدار اور مطلوبہ سیکورٹی کا نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایران خود کو خلیج فارس سمیت علاقے کی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کہہ بھی چکے ہیں کہ ”یہ ایران ہی ہے جو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سیکورٹی کا ضامن ہے۔“ روس بھی حالیہ برسوں میں مغربی ایشیا میں اہم کردار ادا کرنے والی امریکہ کی حریف ایک بین الاقوامی طاقت کی حیثیت سے خلیج فارس کے جنوبی علاقے کے ممالک اور ایران کے تعلقات میں  کشیدگی کم کرنے کے ایرانی منصوبوں کی حمایت کرتا رہا ہے اور اب وہ خلیج فارس میں کشیدگی میں کمی کے لئے اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے منصوبے کے ذریعہ ایک نئے اقدام کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔

 

ٹیگس