بغداد میں سہ فریقی اجلاس کے اہداف
مصر، اردن اور عراق کے وزرائے خارجہ کا، بغداد میں سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا-
مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری، اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور عراق کے وزیر خارجہ محمد علی الحکیم نے اتوار کے روز بغداد میں ایک دوسرے سے ملاقات کی اور سہ فریقی مذاکرات انجام دیئے- مصر ، اردن اور عراق کے وزرائے خارجہ کا اجلاس، اس اجلاس کا تسلسل ہے کہ جو مارچ 2019 میں قاہرہ میں منعقد ہوا تھا-
اس اجلاس ملکوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے سے زیادہ، علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جانا اس اجلاس کا اہم مقصد تھا - عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف کے بقول، علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، سنچری ڈیل، اور ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی جیسے مسائل بغداد کے سہ فریقی مذاکرات کا محور تھے-
شام کی صورتحال کا موضوع بھی، جملہ علاقائی مسائل میں شامل تھا کہ جس کا مصر، اردن اور عراق کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جائزہ لیا گیا- ان تین عرب ملکوں نے ہمیشہ شام کے امور میں غیر ملکی مداخلتوں کی مخالفت کرتے ہوئے اس بحران کو سیاسی طریقے سے حل کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے اور کل ہونے والے اجلاس میں بھی ان ملکوں نے اپنے اسی موقف پر تاکید کی ہے-
سنچری ڈیل کا مسئلہ بھی ، بغداد میں تین ملکوں کے مذاکرات کا محور تھا - اردن اور مصر دو ایسے ملک ہیں کہ جو ایک طرح سے سنچری ڈیل میں شامل ہوتے ہیں - امریکہ کے سنچری ڈیل منصوبے کے مطابق، فلسطینی پناہ گزیں کہ جو دیگر ملکوں میں اس وقت مقیم ہیں، ان کو اس کے ملک کے شہری کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے- فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اردن میں موجود ہے- اگرچہ سنچری ڈیل کے ایک منصوبہ ساز، اور امریکی صدر کے داماد جرڈ کوشنر نے گذشتہ ہفتے اپنے دورۂ اردن میں عبداللہ دوم کے ساتھ ملاقات میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ اس ملک کے بادشاہ کو سنچری ڈیل منصوبے کے تعلق سے راضی کرسکے اور ان کی حمایت حاصل کرے- لیکن اردن اس امریکی منصوبے کا اصلی مخالف ہے- بعض رپورٹوں کے مطابق ، سنچری ڈیل منصوبے کی بنیاد پر، جزیرہ سینا میں مصر کا بھی بعض علاقہ اس منصوبے کا حصہ ہے- مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے گذشتہ ہفتے قاہرہ میں جرڈ کوشنر کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ جزیرہ سینا کا علاقہ کبھی بھی سنچری ڈیل کا حصہ نہیں بنے گا- مصر نے بھی گذشتہ روز کے اجلاس میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا- عراق اگرچہ سنچری ڈیل کا حصہ نہیں ہے لیکن ایک عرب اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے اس نے ہمیشہ امریکہ کے اس نسل پرستانہ منصوبے کی مخالفت کی ہے-
خلیج فارس میں جاری کشیدگی خاص طور پر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدہ ماحول بھی، گذشتہ روز بغداد میں ہونے والے تین فریقی اجلاس کا محور تھا - عراق ان ملکوں میں سے ہے کہ جس نے نہ صرف امریکہ کی، ایران مخالف پابندیوں کی مخالفت کی ہے بلکہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرے- اردن اور مصر بھی ان عرب ملکوں میں سے ہیں جو اپنی خارجہ پالیسی میں، علاقے میں کشیدگی پھیلانے والے اقدامات سے دوری کی ضرورت پر تاکید کرتے ہیں-