Aug ۰۶, ۲۰۱۹ ۱۷:۱۵ Asia/Tehran
  •  ظریف کے انکار کا نتیجہ، پابندی

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے گذشتہ مہینے کے دورہ نیویارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں مجھ سے کہا گیا کہ اگر تم نے امریکی صدر سے ملاقات کی پیشکش نہ مانی تو دوہفتوں میں تم پر پابندی عائد کردی جائے گی-

جواد ظریف نے اس پریس کانفرنس میں جو پیر کو انجام پائی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکی ، آزادی اظہار کے دعوے کے باوجود اس پر یقین نہیں رکھتے کہا کہ مذاکرات اور سفارتکاری کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھوں گا-

امریکی وزارت خزانہ نے اپنے غیرعاقلانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پہلی اگست کو ایران کے وزیرخارجہ کا نام ان افراد کی فہرست میں درج کردیا ہے جن پر امریکہ نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں-

 ڈونالڈ ٹرمپ جب سے صدرامریکہ کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں پہنچے ہیں اس وقت سے انھوں نے بارہا بین الاقوامی قوانین اور آئین کو پامال کیا ہے اور کئی ایٹمی سمجھوتوں سمیت مختلف  معاہدوں سے باہر نکل کرعالمی برادری کو حیران کردیا ہے-

 جواد ظریف نے امریکہ کی جانب سے خود پر پابندی لگائے جانے کی علت و ماہیت سے پردہ اٹھاتے ہوئے درحقیقت امریکہ کو درپیش ایک چیلنج کو عیاں کیا ہے- ظریف کے بیانات میں ایسے نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو رائے عامہ کے لئے شاید زیادہ غیرمتوقع نہ ہو لیکن یقینا امریکہ کا یہ رویہ عالمی برادری کے لئے باعث افسوس ہے- 

 امریکی حکومت نے بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں سے باہر نکل کر ، قوموں کی تحقیر و توہین کرکے ، علاقے کے عرب شیخوں کو دودھ دینے والی گائے سے تشبیہ دے کر اور فرانس کے صدر امانوئل میکرون کو احمق کہہ کر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ دیگر ممالک پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے- جواد ظریف ، ایرانی سفارتکاری کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی حقیقت پسندی سے امریکی ماہیت و تضادات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس کی یاد دہانی کراتے ہیں -

جواد ظریف نے اپنے بیانات کے ایک حصے میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ تسلط پسندی ، منھ زوری اور سپرپاور ہونے کا دور ختم ہوچکا ہے کہا کہ : امریکہ ان میدانوں میں بھی اتحاد قائم نہیں کرسکتا جن میں دوسروں کے لئے سپرپاور ہونے کا کردار ادا کرتا ہے اور ممالک یکی بعد دیگرے اس بات پر شرم محسوس کرتے ہیں کہ ان کے نام امریکہ کے ساتھ ایک ہی فہرست میں ہوں- ایران کے وزیر خارجہ نے خلیج فارس تعاون کونسل کے فروغ اور ایران ، عراق نیز اس کونسل کے تین رکن ممالک کے ساتھ گفتگو کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے علاقائی مذاکرات اور ایک دوسرے کے خلاف عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کو ضروری قرار دیا- جواد ظریف نے مذاکرات کو سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور علاقے کے تمام ممالک کے مفاد میں بتایا اور گفتگو شروع کرنے کی ضرورت پر تاکید کی-

 جواد ظریف نے نیویارک میں  امریکی ذرائع ابلاغ میں اپنے انٹرویو میں ٹیم بی کی جنگ پسندی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ٹیم بی یعنی بولٹن ، بن زائد ، بن سلمان اور بنیامین  نیتن یاہو امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں-

 نیٹو میں امریکہ کے سابق سفیر رابرٹ ای ہینٹر نے لوبلاگ ویب سائٹ پر اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ : کسی حریف حتی دشمن ملک کے سینئر سفارتکارپر پابندی عائد کرنا بہت غیرمعمولی ہے اور سفارتکاری کے بنیادی ترین اصولوں کی خلاف ورزی ہے-

ہینٹر نے اپنے مقالے کے ایک حصے میں لکھا ہے کہ ، ٹرمپ ، بولٹن اور پمپئو کا مثلث ایران کے خلاف جو بھی قدم اٹھاتا ہے اسے وہ بیش ازحد دباؤ کے کمپین کا حصہ سمجھتا ہے- امریکہ نے ظریف کے سلسلے میں جو اقدام کیا ہے وہ ٹرامپ کی ٹیکٹک ہے جس کی بنیاد پر وہ  بحرانی مواقع پر موضوع کا رخ تبدیل کردینا چاہتے ہیں - لیکن ان حالات میں ظریف پر پابندیاں عائد کرنے سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس سے برا پیغام جائے گا- اس اقدام سے واشنگٹن اور اس کے یورپی  اتحادیوں کے درمیان اختلافات بڑھیں گے-

ٹرمپ کے مشیروں اور معاونین کو توقع ہے کہ ایران کی سفارتکاری امریکی دھمکیوں سے مرعوب ہوجائے گی لیکن امریکہ کا یہ خواب کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے-

محمد جواد ظریف نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ : ایران کے دلیر عوام کے دفاع کی سزا میں پابندیاں لگنا میرے لئے سب سے بڑا افتخار ہے-

ٹیگس