ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا دورۂ روس
ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے سمیت اہم موضوعات کے بارے میں بات چیت کے لئے ماسکو کے دورے پر ہیں۔
ادھر ایرانی نائب وزیر خارجہ اور سینئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی کی قیادت میں میں جامع ایٹمی معاہدہ کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی نئی تجاویز کا جائزہ لینے کے لئے ایک سیاسی و اقتصادی وفد پیرس کے دورے پر ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کے یورپ اور ایشیا کے تین ممالک کے دورہ کے بعد جواد ظریف کا یہ دورۂ روس خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اتوار کے روز ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی کمیشن کی نشست کے بعد کہا تھا کہ ”اگر یورپ والوں نے جمعرات 5 ستمبر تک جامع ایٹمی معاہدہ کے بارے میں ضروری اقدامات انجام نہ دیئے تو ایران ایٹمی معاہدہ پر عمل درآمد میں کمی سے متعلق اپنے تیسرے مرحلہ کے بارے میں ان کو مطلع کردے گا۔“ ڈاکٹر ظریف نے کہا کہ ”8 مئی کو ہونے والے فیصلہ کے مطابق ایران، یورپ والوں کو ایک خط کے ذریعہ ایٹمی معاہدہ پر عمل درآمد میں کمی لانے کے ایران کے تیسرے مرحلہ سے آکاہ کردے گا۔“
اس وقت جامع ایٹمی معاہدہ کے بارے میں صلاح و مشورہ فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور جامع ایٹمی معاہدہ کے باقی رہنے یا نہ رہنے کے درمیان فاصلہ روز بروز کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران جامع ایٹمی معاہدہ کے بارے میں ایران اور فرانس کے درمیان کچھ تجاویز کا تبادلہ ہوا ہے۔ یہ تجاویز، جیسا کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر کے دفتر انچارج محمود واعظی نے بتایا ہے ”ایران اور فرانس کے صدور کے درمیان 5 گھنٹے کی ٹیلی فونی بات چیت کے نتیجے میں ایک 'منصوبہ' سامنے آیا ہے۔“
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے ہفتہ کے رات کو فرانس کےصدر ایمانوئل میکرون سے ٹیلی فونی گفتگو کی تھی جس میں انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ اگر یورپ نے جامع ایٹمی معاہدہ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا تو پھر ایران جامع ایٹمی معاہدہ پر عمل درآمد میں کمی کا اپنا تیسرا مرحلہ شروع کردے گا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران کا اصل مقصد جامع ایٹمی معاہدہ کی بقا ہے اور اس سلسلہ میں وہ ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے کہا کہ ”جامع ایٹمی معاہدہ میں شامل تمام رکن ممالک کا اس معاہدہ پر مکمل عمل درآمد اور خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سمیت تمام آبی راستوں میں آزادانہ جہازرانی کی سیکورٹی، موجودہ مذاکرات میں ایران کے دو اصل مقاصد ہیں۔“
جامع ایٹمی معاہدہ پر عمل نہ کرنا اور اس معاہدہ سے امریکہ کی یک طرفہ علیٰحدگی سے آزاد عالمی تجارت کے راستہ میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئی ہیں اور اس عمل کے جاری رہنے سے معاہدہ میں شامل دیگر رکن ملکوں سے زیادہ یورپ کو نقصان ہوا ہے لیکن اسلامی جمہوریۂ ایران نے کبھی بھی مذاکرات سے روگردانی نہیں کی ہے بلکہ اس نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر یورپ جامع ایٹمی معاہدہ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے گا تو ایران بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کو بحال کر دے گا۔
اقرام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کے مطابق جامع ایٹمی معاہدہ میں شریک تمام رکن ممالک اس معاہدہ پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یورپ کا مالیاتی پیکیج انسٹیکس بھی اپنی ذمہ داریوں پر یورپ کے عمل درآمد کا نقطہ آغاز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ ایٹمی معاہدہ پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ایران کے مقابلہ میں بہت پیچھے ہے۔ ایران نے ابھی تک مذاکرات اور جامع ایٹمی معاہدہ پرعمل کر کے معاہدہ میں شامل دیگر رکن ممالک کو کافی موقع دیا ہے لیکن اس کے مد مقابل معاہدہ کے شرکا نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ موجودہ حالات میں فرانس کی طرف سے جامع ایٹمی معاہدہ کی بقا کے لئے ایک قابل قبول طریقۂ کار کی پیش کش کو مثبت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کے پیش نظر کہ چین اور روس کے برخلاف یورپ نے ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات تقریباً منقطع کردیئے ہیں لہٰذا اس کے ازالہ کے لئے یورپ کے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ در حقیقت ایران کی طرف سے تیسرے مرحلہ پر عمل درآمد کا تعلق پیرس مذاکرات کے نتیجے سے ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر رحمان قہرمان پور کا کہنا ہے کہ ایران اور تین یورپی ممالک اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جامع ایٹمی معاہدہ کے سلسلہ میں سنجیدہ اقدام کریں اور حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں فریقوں میں جو صورت حال ایک سال سے جاری ہے اس کو برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جامع ایٹمی معاہدہ پر عمل درآمد میں کمی لانے کا تیسرا مرحلہ شروع ہونے میں ایران کی طرف سے دی گئی 60 روزہ مہلت میں باقی بچے ایام میں ماسکو، پیرس اور ویانا میں ہونے والی سفارتی کوششیں جامع ایٹمی معاہدہ کو اس پر مکمل عمل درآمد کے سلسلہ میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں۔