Sep ۰۳, ۲۰۱۹ ۱۸:۱۰ Asia/Tehran
  • ایران اور روس کے درمیان ماسکو میں جامع معاہدے

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے پیر کو ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ماسکو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں، دونوں ملکوں کے درمیان، خلیج فارس کے علاقے کو سلامتی ضمانت فراہم کرنے سے لے کر تجارتی تعلقات کے فروغ تک کے جامع معاہدے ہونے کی خبر دی ہے-

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ تبادلۂ خیال میں، ایران اور روس کے ایجنڈے میں قرار پانے والے متعدد مسائل  کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اس وقت ہمیں جن پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے، اس کے بارے میں اتفاق رائے انجام پایا ہے- لاوروف نے کہا کہ ایران اور روس کا یہ ماننا ہے کہ علاقے کے وہ تمام ممالک کہ جن کے مفادات علاقے سے وابستہ ہیں وہ اس علاقے کو سلامتی فراہم کریں اور علاقے کو پرامن بنائیں- اسی سلسلے میں ایران اور روس کی جانب سے اس مسئلے کے تعلق سے کچھ ایسے اقدامات پیش نظر ہیں کہ جو بہت ہی صاف و شفاف اور واضح ہیں اورہم تمام فریقوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں گے کہ جو اس میں شامل ہیں-

فریقین نے سیاسی، سیکورٹی اور دہشت گردی سے مقابلے جیسے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون پر تاکید کرتے ہوئے تجارتی تعاون کے شعبے میں بھی کہا کہ تہران کے ساتھ تجارت کی راہوں کو آسان بنانے اور فروغ دینے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے- ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں بھی دونوں فریق نے اس معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں کی پابندی پر تاکید کی - واضح رہے کہ ایٹمی معاہدے کی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اتفاق رائے سے منظوری دی گئی تھی۔

ایران اور روس کے درمیان متعدد مسائل سے متعلق ہونے والے معاہدوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دونوں ممالک بہت سے مسائل میں مشترکہ نظریے رکھتے ہیں-لاوروف کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر محمد جواد ظریف نے جو بیان دیئے اور اس میں ان کا یہ بیان بھی ، کہ خلیج فارس میں امریکہ کی موجودگی اس علاقے میں کشیدگی میں اضافے کا باعث ہے، اس امر کا آئینہ دار ہے کہ اس سلسلے میں ایران اور روس کا نظریہ خاص طور پر خلیج فارس کےعلاقے میں سلامتی فراہم کرنے کے بارے میں یکساں ہے- یہ تعاون قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے میں امن و استحکام کے تحفظ کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن دیگر عوامل بھی اس تعاون میں تیزی لانے میں موثر رہے ہیں کہ جن میں سے ایٹمی معاہدے سمیت بعض مسائل پر ظریف اور لاوروف کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اشارہ کیا گیا ہے-

جواد ظریف نے ماسکو میں اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ نے گذشتہ ایک سال کے دوران اس سمجھوتے پر عملدرآمد روکنے کے لئے پیہم کوششیں انجام دی ہیں کہا کہ ایران نے امریکہ کی اس پالیسی کا علم ہونے کے باوجود اب تک رواداری اور اسٹریٹیجک صبر کا مظاہرہ کیا ہے لیکن افسوس کہ یورپی یونین اور عالمی براداری کے دیگر ارکان میں امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے- 

جواد ظریف نے کہا کہ اگر یورپی ممالک ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرسکے تو ایران بعض وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کے سلسلے میں تیسرا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا- تیسرا قدم اٹھائے جانے پر ایران ایسے میں تاکید کر رہا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی خلاف ورزیوں اور اسی کے ساتھ بعض یورپی ملکوں کی جانب سے امریکہ کی طرفداری نے ایران اور ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے بہت سے ملکوں کے اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے- ان حالات میں امریکہ کی تخریبی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا راستہ محض بیان جاری کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ان تمام ملکوں کی جانب سے عملی اقدام کی ضرورت ہے کہ جو امریکہ کی یکطرفہ پسندی اور پابندیوں کے مخالف ہیں-

ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد، ایران ایٹمی معاہدے میں باقی رہ جانے والے فریق ملکوں کے ساتھ تعاون اور تبادلۂ خیال جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ ایران کے مفادات کی تکمیل کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کی بقا کی ضمانت بھی حاصل ہوجائے-

ایران موجودہ صورتحال میں اس وقت تک ایٹمی معاہدے پر کاربند رہے گا جب تک کہ دیگر یورپی فریق ممالک بھی اس معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کریں گے- ابھی تک ایٹمی معاہدے کے باقیماندہ فریقوں خاص طور پر یورپی ملکوں نے مکمل طور پر اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں قدم نہیں اٹھایا ہے- ایسے حالات میں ایران  ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں میں کمی کی پالیسی اپناکر اس کوشش میں ہے کہ وعدوں پرعملدرآمد میں توازن برقرار کرنے کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے کے تعلق سے انجام پانے والی کوششوں میں مدد و تعاون کرے-

       

ٹیگس