صدر حسن روحانی کا دورۂ نیویارک اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں اجلاس سے توقعات
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورۂ نیویارک آج سے شروع ہوا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی اس دورے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے کے علاوہ جنرل اسمبلی میں موجود ملکوں کے بعض سربراہوں اور سیاسی شخصیات سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کریں گے- صدر حسن روحانی کے دورۂ نیویارک میں شروع سے ہی امریکہ نے مشکلات کھڑی کی ہیں یہاں تک کہ ایران نے اس دورے کو منسوخ کرنے کی بھی بات کہہ دی- لیکن اس وقت یہ دورہ انجام پا رہا ہے اور اس وقت تمام تر نگاہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کی شرکت سے جو توقعات ہیں ان پر مرکوز ہیں-
امریکہ نے اس وقت ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پابندیوں کی مخالفت میں ، کہ جو اقوام متحدہ کی قرارداد کی کھلی خلاف ورزی ہے، عالمی برادری نے ان پابندیوں کے خلاف ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے اسی لئے یہ مسئلہ قابل تنقید ہے-علاقے میں امریکہ کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا ماحصل بھی صرف خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کو بدامنی اور عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے-
اس نقطہ نگاہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صدر حسن روحانی کی شرکت سے، بین الاقوامی برادری کے لئے ٹرمپ کے انتہائی غیر قانونی اقدامات کو چیلنج سے دوچار کرنے کا ایک موقع فراہم ہوسکتا ہے- اگرچہ اس سلسلے میں گذشتہ انجام پانے والے اجلاسوں کے تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ٹربیونل کو لازمی طور پر تمام عالمی حقائق کو منعکس کرنے میں خود مختار مقام حاصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ضمن میں میڈیا کے ساتھ بات چیت اور سفارتی ملاقاتیں اور مختلف ملکوں کے سیاسی وفود کے ساتھ مذاکرات، حق پسندانہ مواقف بیان کرنے کے لئے مناسب موقع فراہم کرسکتے ہیں-
عالمی مسائل کے سینئر ماہر مہدی ذاکریان رواں سال میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں انتہائی اہم مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر آج تک کبھی بھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ اقوام متحدہ کی پوزیشن اس حد تک تنزلی کا شکار ہوگئی ہو- حققیت یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ ایک سال سے زائد عرصے سے کنارے لگا دیا ہے اور امریکہ کی جانب سے مختلف طریقوں سے اس کی توہین اور مذاق اڑایا گیا ہے- یہ عمل وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی تین سالہ رہائش کا نتیجہ ہے اور ہم آئے دن عالمی معیارات کی کسوٹی پر اقوام متحدہ کی ساکھ کمزور ہونے کا مشاہدہ کر رہے ہیں -
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک ممالک بہت سے مسائل پر بات چیت اور تبادلۂ خیال کرسکتےہیں- ان دنوں عالمی معیشت غیر قانونی پابندیوں جیسے خطرات سے دوچار ہے اور پابندیاں، اقتصادی دہشت گردی کے ایک ہتھکنڈے میں تبدیل ہوگئی ہیں- ان دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ اس صورتحال کے جاری رہنے سے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں- امریکہ کی یکطرفہ پسندی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں سے واشنگٹن بے توجہی برت رہا ہے اور کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے- ان اقدامات سے نہ صرف عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی پوزیشن بھی اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے- سلامتی کے مسئلے میں بھی امریکہ کبھی بھی علاقے میں پائیدار سلامتی اور عالمی امن کے درپے نہیں رہا ہے- درحقیقت امریکہ کے یکطرفہ رویے اور اقدامات، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کردار کے کمزور ہونے کا باعث بنے ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے ساتھ ہی ان مسائل اور عالمی امن و سلامتی کے مسئلے کے بارے میں واضح موقف بیان کرنے میں پرعزم ہیں - ڈآکٹر حسن روحانی نے اتوار کو ہفتۂ دفاع مقدس کی مناسبت سے منعقدہ ایران کی مسلح افواج کی پریڈ میں اپنے ہرمز آشتی فارمولے کے بارے میں جس کو وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کرنے والے ہیں، کہا کہ اس فارمولے سے دنیا کو معلوم ہوگا کہ ایران خطے میں طویل المیعاد امن کا خواہشمند ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس فارمولے میں قیام امن کے لئے خطے کے سبھی ملکوں کے تعاون کی بات کی گئی ہے ۔ اور ایران علاقے کے ملکوں کے تعاون سے خلیج فارس اور بحیرۂ عمان کو سلامتی فراہم کرسکتا ہے-