Sep ۲۸, ۲۰۱۹ ۱۳:۱۳ Asia/Tehran
  • رہبر انقلاب اسلامی : یورپ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا

رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد سے یورپی ملکوں کے رویے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے اور معاہدے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اغیار سے امیدیں وابستہ کرنا اور ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کو مجتہدین کی کونسل یا مجلس خبرگان کے سربراہ اور اراکین سے خطاب کے دوران ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد سے یورپیوں کے طرز عمل اور اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور اسی طرح امریکا کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے اور ایران کے خلاف دیگر ظالمانہ پابندیاں لگانے کے بعد ، یورپی ملکوں کی روش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ والوں نے اپنے وعدوں کے برخلاف امریکی پابندیوں کے تعلق سے کوئی بھی عملی اقدام نہیں کیا اورآئندہ بھی بعید نظر آتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے کے لئے کچھ کریں گے بنابریں یورپ والوں سے امیدختم کرلینی چاہئے ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کبھی بھی ان ملکوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے کہ جنہوں نے اسلامی نظام کے خلاف دشمنی کا پرچم اٹھا رکھا ہے اور ان میں سرفہرست امریکا اور چند یورپی ممالک ہیں ،  کیونکہ وہ ایرانی عوام کے ساتھ کھلی دشمنی کررہے ہیں-

امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد تین یورپی ملکوں کی ناکام کارکردگی اور ایران کی علاقائی پالیسیوں اور دفاعی صلاحیتوں کے تعلق سے ان ملکوں کا سیاسی موقف ، امریکہ کے ساتھ ان کے ہم آہنگ ہونے کا غماز ہے-

یورپی ملکوں نے  بظاہر ایٹمی معاہدے اور اپنے وعدے پورے کرنے کی بات کہی ہے ، حتی انہوں نے کوشش بھی کی ہے کہ ڈالر سے ہٹ کر ایک ایسا میکانزم قائم کریں تاکہ ایران کے ساتھ مالی رابطہ منقطع نہ ہو، تاہم اسے عملی شکل دینے میں یورپی ممالک ناتواں رہے ہیں-  یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد کچھ وعدے ضرور کئے تاہم ان کے عملی ہونے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے یورپی ملکوں سے بدگمانی میں اضافہ ہوگیا ہے- آٹھ مئی 2019 کو ایران نے ایٹمی معاہدے کے وعدوں کی سطح میں کمی لانے کے ل‏ئے، قدم بہ قدم عمل شروع کردیا اور اس وقت وہ تیسرے مرحلے میں ہے، ایسے میں فرانس کے صدر امانوئل میکرون کی قیادت میں یورپی ملکوں نے کچھ اور اقدامات اپنے ایجنڈے میں قرار دیئے ہیں-

یہ اقدامات اور کوششیں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی اور فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ ٹیلیفوںی گفتگو کے ذریعے اپنے عروج کو پہنچ گئیں اور فرانس نے ایک منصوبے کا اعلان بھی کر دیا لیکن یہ منصوبہ امریکہ کی مخالفت کے سبب اب تک عملی جامہ نہیں پہن سکا ہے اور یہ بذات خود ایٹمی معاہدے کے حقائق سے متصادم ہے- فرانس کی جانب سے ایران کو پندرہ ارب ڈالر دینے کی تجویز، کہ جس کی امریکہ نے مخالفت کردی ، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تجویز عملی طور پر ایٹمی معاہدے کے وعدوں کے مطابق نہیں ہے اور ایران کے لئے مالی بوجھ کی حامل ہے- وہ چیز جو ایران کے لئے ایٹمی معاہدے میں اہم ہے تیل کی فروخت اور اس کی آمدنی حاصل ہونا ہے-

ایران کے ساتھ یورپ کے مسلسل تبادلۂ خیال کے باوجود ، کہ جس میں صدر ایران کے دورۂ نیویارک میں بہت تیزی بھی آئی، ابھی بھی ایران کے مطالبات پورے نہیں ہوسکے ہیں- ایٹمی معاہدے کے شریک تین یورپی ملکوں نے ، ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے وعدوں کی سطح میں کمی لانے کے اقدام پر بریک لگانے کے لئے بہت زیادہ تبادلۂ خیال کیا ہے لیکن اگر یہ ممالک اسی طرح امریکہ کے سامنے کمزور پڑتے گئے تو پھر ایران بھی پوری قوت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں کئے گئے وعدوں میں کمی لاتا رہے گا-

ایران نے ایٹمی معاہدے کے وعدوں کی سطح میں کمی لانے کے لئے تین مرحلوں میں جو قدم اٹھائے ہیں ان سے ، یورپیوں پر سے ایران کا اعتماد اٹھ جانے کی نشاندہی ہوتی ہے اور جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ اگر یورپی ممالک ایران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے تو ان سے بھی امید ختم کرلینی چاہئے- 

ٹیگس