شام کا موضوع ، تہران میں روسی صدر پیوٹن کے نمائندے کے ساتھ تبادلۂ خیال کا محور
تہران میں روسی صدر کے خصوصی نمائندے نے، ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری اور شام کے امور میں ایران کے وزیر خارجہ کے خصوصی معاون کے ساتھ ملاقات کی اور اس ملک کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا-
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے بدھ کو تہران میں شام کے امور میں روسی صدر کے خصوصی نمائندے الیگزنڈر لاورتینوف سے ملاقات میں داعش کو دوبارہ تقویت پہنچانے اور مغربی ایشیا میں بدامنی کو ہوا دینے کی امریکا کی ناپاک سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقے کے ممالک اس طرح کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے جن سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہو، ذمہ داری اور ہوشیاری کا مظاہرہ کریں -
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے کہا کہ علاقے میں کسی بھی طرح کی جنگ و جارحیت، امریکا اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد دے گی کیونکہ یہ حکومتیں خطے میں بدامنی اور بحران پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ان ملکوں کے عوام جو برسوں سے جنگ و خونریزی کا شکار رہے ہیں مزید بحران اور بدامنی کو تحمل کرنے کی توانائی نہیں رکھتے -
شام کے امور میں روسی صدر کے خصوصی نمائندے الیگزنڈر لاورتینوف نے بھی اس ملاقات میں شمالی شام کی تازہ ترین صورتحال سے باخبر کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور ماسکو کے مابین تعاون علاقے میں امن و استحکام کی تقویت میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے -
ایران اور روس نے ترکی کے ساتھ مل کر 2014 سے، شام کے بحران کے حل میں اچھا تعاون کیا ہے اور اسی دائرے میں آستانہ مذاکرات کا عمل شروع ہوا- اور اسی دائرے میں شام کے بحران سے متعلق مختلف مذاکرات انجام پائے جس سے اس ملک میں رونما ہونے والی سیاسی اور میدانی صورتحال میں نظم آیا اور شام میں نسبتا امن قائم ہوا ہے- یہ مذاکرات وزرات خارجہ کی سطح کے علاوہ ، ایران ، روس اور ترکی کے سربراہوں کی سطح پر بھی انجام پائے ہیں اور ان مذاکرات کا آخری دور، ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں منعقد ہوا- شام کی ارضی سالمیت، خودمختاری اور قومی اقتدار اعلی کے تحفظ اور دہشت گردی سے مشترکہ مقابلے پر، ہمیشہ ایران ، روس اور ترکی کے صدور نے تاکید کی ہے اور یہی امر آستانہ مذاکرات کی کامیابی کی علامت ہے-
آستانہ مذاکرات کا عمل ایک ایسا سیاسی عمل ہے جس میں امریکہ کا کوئی براہ راست دخل نہیں ہے اور اسی مسئلے نے شام میں ایران ، روس اور ترکی کے سہ فریقی تعاون کو کامیابی اور پیشرفت سے روبرو کیا ہے-
اس درمیان شام میں روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار دیگر ملکوں سے زیادہ نمایاں رہا ہے- تہران اور ماسکو نے بشار اسد کی قانونی حکومت کی حمایت اور اس ملک کے فوجیوں کی عسکری مشاورتی مدد کر کے اس ملک سے دہشتگردی کے خطرے کو دور کردیا- شام میں روس اور ایران کے درمیان تعمیری تعاون نے اس ملک کے سیاسی و جنگی معاملات کو بشاراسد حکومت کے مفاد میں تبدیل کردیا ہے اور اس تعاون کا نتیجہ یکے بعد دیگرے عرب ممالک کی دمشق میں واپسی اور شام میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی شکل میں سامنے آیا ہے-
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایران اور روس کا مشترکہ تعاون اور مغربی ایشیا کے علاقے میں دہشتگردی کی لعنت کا کمزور ہونا اس شعبے میں تہران و ماسکو کے درمیان تعاون کی اہمیت کا ثبوت ہے-
اگرچہ ترکی کی حکومت شام سے ملنے والی اپنی سرحد سے متعلق سیکورٹی خدشات رکھتی ہے لیکن ان خدشات کو برطرف کرنے کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یکطرفہ قدم اٹھاتے ہوئے شام کے شمال مشرقی علاقوں پر حملہ کیا جائے بلکہ شام کی حکومت کے ساتھ مشترکہ تعاون کے دائرے میں، آدانا معاہدے پر عملدرآمد ہی ترکی کی حکومت کی تشویش اور خدشات برطرف کرنے کا بہترین راستہ ہے-
ترکی کے یکطرفہ اقدامات سے، نہ صرف اس ملک کے خدشات برطرف کرنے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ علاقے میں بحران کو مزید بڑھاوا ملے گا اور تمام ممالک کو اس سے نقصان پہنچے گا- مغربی ایشیا کے علاقےمیں دہشت گردوں کی موجودگی تمام ملکوں کے لئے خطرہ ہے اور سب کو چاہئے کہ شام کی حکومت کی مدد کریں تاکہ یہ ملک دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکے-
شامی حکومت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت ہے اور اس کی ارضی سالمیت ، خودمختاری اور قومی اقتدار اعلی کا تحفظ ضروری ہے- ایسے حالات میں ترکی کی حکومت کو اپنی سیکورٹی کی تشویش برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ شامی فوج کے ساتھ مل کر اپنی کاروائی انجام دےاور اس ملک کی ارضی سالمیت کا احترام کرے-