Feb ۰۹, ۲۰۲۲ ۱۶:۳۴ Asia/Tehran
  • ہندوستان میں حجاب کے مسئلے پر ہنگامہ، پاکستان سمیت پوری دنیا میں بحث

ہندوستانی کی جنوبی ریاست کرناٹک ان دنوں بہادر اور شجا‏‏ع طالبات کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے کرناٹک کے ویڈیو نے پوری دنیا میں ہنگامہ مچا دیا ہے۔

کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں ایک سرکاری اسکول میں حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے پر پابندی کے خلاف طالبات کی جانب سے مہم شروع ہوئے ایک مہینہ ہو چکا ہے، یہ خبر انٹرنیٹ پر پھیل گئی اور طالبات نے اسکول کے گیٹ کے باہر پڑھائی جاری رکھتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔

ہندوتوا کے حامیوں کے ہجوم نے با ایک طالبہ کا گھیراؤ کیا اور اس کی تضحیک کی، جس کے جواب میں طالبہ نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا، یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوا کہ پوری دنیا سے رد عمل سامنے آنے لگے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے علاقے منڈیا میں اپنے کالج کی پارکنگ میں مسکان خان نامی طالبہ اپنی اسکوٹی کو پارکنگ میں جیسے ہی کھڑی کرتی ہيں، اس کے بعد کچھ انتہا پسند نوجوان کی ان کی ہنگامہ کرتے ہوئے بڑھتے ہیں، چيختے چلاتے ہیں اور مذکورہ مسلم لڑکی کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہيں۔

سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوتی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بے خوف طالبہ نعرہ لگاتی ہوئی اپنے کالج کی عمارت کی جانب بڑھتی رہی۔

مسکان خان نے ہندوستانی چینل این ڈی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ جب سے میں نے کالج میں پڑھنا شروع کیا ہے، میں نے ہمیشہ برقعہ پہنا اور حجاب کیا، جب میں کلاس میں داخل ہوتی ہوں تو برقعہ اتار دیتی ہوں، پرنسپل نے کچھ نہیں کہا، یہ سب باہر کے لوگوں نے شروع کیا۔

 

کرناٹک کی اس شجاع طالبہ کو ہراساں کیے جانے پر ہر طرف سے رد عمل سامنے آ رہا ہے، میڈیا، بالی ووڈ کی کچھ معروف شخصیات، دانشوروں اور سیاست دانوں تک نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا جبکہ پڑوسی ملک پاکستان سے بھی شدید رد عمل آ رہا ہے۔

ہندوستانی نیوز اینکر راجدیپ سردیسائی نے کہا کہ کرناٹک کی ایک تازہ ویڈیو میں ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے والے مردوں کو حجاب میں ملبوس ایک نوجوان طالبہ کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، انتہاپسندی کے قوم پر یہی اثرات ہوتے ہیں، یہ ہمیں لباس، خوراک اور مذہب پر تقسیم کرتا ہے، ہمیں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، لیکن ہم ان کے لباس پر توجہ دیتے ہیں! یہ شرمناک ہے۔

 

ہندوستانی فلمساز پوجا بھٹ نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کی کوشش کرنے کے لیے مردوں کا پورا ہجوم درکار رہا، اپنے زعفرانی رنگ کے دوپٹوں کو ہتھیار کی طرح لہرا کر انہوں نے اپنی کمزوری کو سفاک پن سے چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ مقصد سے بھٹکی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی نذر ہو چکا ہے۔

ہندوستان کے مشہور مصنف ویبھو وشال نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کس حالت میں ڈھل چکا ہے۔ نوبل انعام یافتہ اور سرگرم سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے روکنا تشویشناک ہے۔ انہوں نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم خواتین کو پسماندگی کا شکار بنائے جانے سے روکیں۔

ادھر پڑوسی ملک پاکستان کی جانب سے بھی شدید رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان لڑکی نے ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو بے نقاب کر دیا جبکہ  وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے فاشسٹ ہندوتوا بریگیڈ کے سامنے مسکان کی ’جرات اور اس کے اعتماد کو سراہا۔

ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مسلمانوں کو مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کے ہندوستانی ریاست کے منصوبے کا حصہ ہے جبکہ پاکستان کے  وزیراطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ غیر مستحکم قیادت میں ہندوستانی معاشرہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔

 

ہندوستان کی جنوبی ریاست میں حالات بدستور بگڑتے ہی جا رہے ہیں اور دوسرے اسکولوں نے بھی انتہا پسندوں کے خوف سے حجاب پر پابندی لگادی جنہوں نے حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی نے حالات پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں کو 3 روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا کیونکہ کیمپس میں حجاب پہننے والی طالبات کا تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔

28 دسمبر 2021 کو کرناٹکا کی گورنمنٹ خواتین پی یو کالج کی 6 طالبات کو حجاب کرنے پر داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ بعد از اں جن طالبات کو کالج میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی انہوں نے کئی دنوں تک احتجاج کیا تھا اور ان میں سے 5 افراد نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی اور استدعا کی ہے کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے کی اجازت دی جائے۔

بہرحال یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا اور اب دیکھنا ہے کہ کرناٹک کی ہائی کورٹ کیا فیصلہ سناتا ہے۔ 

ٹیگس