Oct ۲۱, ۲۰۱۵ ۱۶:۳۸ Asia/Tehran
  • سلامتی کونسل کے کردار پر ایران کی نکتہ چینی
    سلامتی کونسل کے کردار پر ایران کی نکتہ چینی

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکثر مواقع پر کونسل نے اپنے بنیادی اصولوں کی پابندی نہیں کی۔

منگل کی شام سلامتی کونسل کے طریقہ کار پربحث کے لئے ایک اجلاس منعقد ہوا ۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے اس اجلاس میں ناوابستہ تحریک کے نمائندے کی حیثت سے خطاب کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی کارکردگی میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ۔

انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو مسائل کے حل کے سلسلے میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن اکثر معاملات میں اس نے اپنی غیر جانبداری باقی نہیں رکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو اپنے فیصلوں کے نتائج کے لئے جواب دہ بھی ہونا چاہئے۔
غلام علی خوشرو نے کہا کہ ناوابستہ تحریک سمجھتی ہے کہ شفافیت، امانت داری، غیر جانبداری اور استحکام، سلامتی کونسل کی کارکردگی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے ۔

انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مواقع پر ان اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
غلام علی خوشرو نے ایسے امور میں جو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مداخلت کو غیر ضروری قرار دیا۔انھوں نے سلامتی کونسل کے اراکین سے اپیل کی کہ ان اختیارات کے تحت ہی کام کریں جو اقوام متحدہ کے منشور میں ان کو دیے گئے ہیں۔
انھوں نے سلامتی کونسل کے غیر جانبدار نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران سلامتی کونسل نے بعض مواقع پر اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق کے مطابق طاقت کے استعمال کا اجازت نامہ صادر کیا اور بعض جگہوں پر ایسے ہی حالات میں خاموشی اختیار کی ہے۔
انھوں نے اپنے اس خطاب میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا انتخاب ہوگا، اس سلسلے میں ناوابستہ تحریک کے موقف پر توجہ دیئے جانے اور جنرل اسمبلی کی مرکزی کردار کی تقویت پر تاکید کی ۔
حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی گزشتہ عشروں کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کونسل نے عالمی بحرانوں کو منصفانہ طور پر حل کرنے کے لئے کبھی بھی کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کیا ہے، جب کہ اگر سلامتی کونسل نے ٹھوس اور غیر جانبدارانہ موقف اپنایا ہوتا تو بہت سی جنگوں اور بحرانوں کو شروع میں ہی روک کے لاکھوں انسانوں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

اس سلسلے میں شام، فلسطین، یمن ، افغانستان اور عراق کے حالات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ ان ملکوں میں بحران ایک دن میں نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ تدریجی طور پر وجود میں آیاہے ۔

اگر سلامتی کونسل نے اپنے فرائض پر غیر جانبداری سے عمل کیا ہوتا تو لاکھوں انسانوں کی جان بچائی جاسکتی تھی جو اس کی غفلت کی وجہ سے مارے گئے ۔
عالمی امن و سلامتی کا تحفظ سلامتی کونسل کا اہم ترین فریضہ ہے جس میں یہ کونسل ناکام رہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں ہر ملک کو شامل ہونا چاہئے لیکن اس مہم میں ملکوں کو شمولیت پر آمادہ کرنا اور ان کے درمیان ہم آہنگی وجود میں لانا سلامتی کونسل کا فریضہ ہے۔

اسی بناپر بہت سے ممالک سلامتی کونسل کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کا ڈھانچہ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر حال میں اس کی غیر جانبداری باقی رہے اور کوئی بھی ملک اس کو اپنے ناجائز مفادات اور دوسرے ملکوں سے دشمنی نکالنے کے لئے اس سے ایک حربے اور وسیلے کے طور پر کام نہ لے سکے۔

ان ملکوں کا کہنا ہے کہ کونسل میں ویٹو ختم کردیا جائے اور اس کے مستقل اراکین کی تعداد بڑھا کے انیس سے پچیس کردی جائے۔

ٹیگس