Jan ۲۸, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۸ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے نے ثابت کر دیا کہ مذاکرات کی میز زیادہ موثر ہے: ایران فرانس بزنس فورم سے صدر مملکت کا خطاب

صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کو پیرس میں تاجروں اور بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں بعض طاقتوں کی جانب سے دوسرے ملکوں کے خلاف پابندیاں لگانے کی پالیسی کو ناکام قرار دیا۔ انھوں نے اسی طرح پیرس کے انٹرنیشنل ریلشن انسٹی ٹیوٹ میں فرانس کے محققین اور دانشوروں کے اجلاس سے خطاب میں مشرق وسطی کے تعلق سے مغربی طاقتوں کی سامراجی روش پر سخت تنقید کی۔

صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کو پیرس میں فرانس کے تاجروں اور بڑی کمپنیوں کےمالکین اور ڈائریکٹروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا کہ پابندیاں لگانے کی پالیسی ہمیشہ غلط رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تاریخ میں پابندیاں لگانے کی پالیسی کبھی بھی کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہے۔

انھوں نے پیرس میں ایران فرانس بزنس فورم کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ سال ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان انجام پانے والے جامع ایٹمی معاہدے نے ثابت کر دیا کہ مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے اقوام کی ترقی کے راستے کس طرح کھولے جا سکتے ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ اس معاہدے نے ثابت کر دیا کہ مذاکرات کی میز زیادہ موثر ہے۔

انھوں نے تہران اور پیرس کے تاریخی روابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنے باہمی روابط کے سدھار اور فروغ کا تاریخی موقع ملا ہے اور تہران باہمی روابط کی تاریخ میں ایک نیا باب کھولنے کے لئے تیار ہے۔

اس نشست میں فرانس کے وزیر اعظم مانوئل والس بھی شریک تھے ۔ انھوں نے صدر ایران کے دورہ پیرس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ کئی لحاظ سے اہم ہے ۔ انھوں نے کہا کہ صدر ڈاکٹر روحانی کے اس دورے میں تہران اور پیرس کے درمیان مختلف تجارتی اور اقتصادی شعبوں کے ساتھ ہی صحت، زراعت اور ماحولیات کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون کے معاہدے انجام پائیں گے۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کو اسی طرح فرانس کے انٹرنیشنل ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ میں فرانس کے محققین اور دانشوروں کے اجتما ع سے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مشرق وسطی کی بعض اقوام کی ساٹھ سال سے تحقیر اور تذلیل کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس علاقے میں بعض ایسی قومیں ہیں جن کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا اور وہ کیمپیوں میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ سامراج نے ان قوموں کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ان قوموں کے افراد کو یورپ میں زندگی بسر کرنے میں حقارت کا سامنا کرنا پڑ ا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ تھوڑے سے تشدد پسند افراد کے دریچے سے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی برادری کو تشدد پسند ظاہر کرنا غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت مشرق وسطی، افغانستان، عراق، شام ، یمن، لیبیا اور کئی دیگر ملکوں کو تشدد پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے جبکہ ان ملکوں اورعلاقوں کے عوام امن پسند ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پرامن زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اس وقت قوموں کے درمیان دوریاں پیدا کر دی گئی ہیں اورعوام کا قتل عام اور ثقافتی مراکز کو نذر آتش کئے جانے سے مختلف ممالک تباہ ہو رہے ہیں جن کی تعمیر نو کے لیے برسوں کا عرصہ درکار ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ تشدد کا دائرہ ایک یا دو ملکوں تک محدود نہیں رہ سکتا اور یورپ کی جانب پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ پڑنا نیز اس کے نتائج، اس بحران کی منتقلی کی علامات ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ یورپ کئی لاکھ پناہ گزینوں سے دوچار ہونے کے بعد حیرانی اور پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے جبکہ ایران کئی عشرے سے تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اور ان کے بچے ایرانی بچوں کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں اور ایران کی یونیورسٹیوں میں بیس ہزار افغان طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح پیرس میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹرجنرل ارینا بوکووا سے ملاقات میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ثقافتی آثار کی مسماری اور تشدد کی روک تھام میں یونیسکو کے فعال کردار کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے علاقے کے ثقافتی آثار کی حفاظت کے سلسلے میں یونسکو کی ذمہ داری اور کردار کو اہم قرار دیا اور کہا کہ تمام اداروں خاص طور سے یونسکو کو چاہئے کہ مختلف ملکوں منجملہ عراق اور شام جیسے ملکوں میں انسانی نیز ثقافتی اقدار و آثار کی حفاظت میں پوری توانائیاں بروئے کار لائے۔

ٹیگس