ایران کے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ڈاکٹر حسن روحانی دوبارہ صدر منتخب
ایران کے بارہویں صدارتی انتخابات کے نتائج کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا گیا اور ڈاکٹر حسن روحانی، دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہو گئے۔
ایران کے وزیرداخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے ہفتے کے روز نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ مجموعی طور پر چار کروڑ، بارہ لاکھ، بیس ہزار، ایک سو اکتیس ووٹوں میں سے دو کروڑ، پینتیس لاکھ، انچاس ہزار، چھے سو سولہ ووٹ حاصل کر کے ڈاکٹرحسن روحانی ایک بار پھر ایران کے صدر منتخب ہو گئے۔انھوں نے کہا کہ صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر روحانی کے بعد سید ابراہیم رئیسی نے ایک کروڑ، ستّاون لاکھ،چھیاسی ہزار، چار سو انچاس ووٹ حاصل کئے۔ جبکہ مصطفی آقا میر سلیم نے چار لاکھ اٹھہتر ہزار، دو سو پندرہ ووٹ اور مصطفی ہاشمی طبا نے دو لاکھ، پندرہ ہزار چار سو پچاس ووٹ حاصل کئے۔اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی و بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو بات خاص طور سے اہمیت کی حامل ہے وہ ایرانی عوام کی انتخابات میں شاندار شرکت اور وسیع پیمانے پر ووٹنگ میں حصہ لینے کا کارنامہ رقم کرنا ہے جو انھوں نے ایک بار پھر انجام دیا ہے۔ خود وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے صدارتی و بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ پچہتّر فیصد سے زیادہ رہا اور ملک کے موجودہ صدر حسن روحانی نے دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد یعنی ستّاون فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں جس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ گیارہویں حکومت کی پالیسیوں پر عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی خواہش اور تاکید پر عمل ناقابل انکار حقیقت ہے اور جمعے کے روز اس بات کی خبریں اور رپورٹیں گشت کرتی رہیں کہ پولنگ مراکز پر ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور رات ہوجانے کے باوجود لوگ لمبی لمبی صفوں میں لگے ہوئے تھے جو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے اور ووٹنگ کی مدّت میں رات بارہ بجے تک توسیع کئے جانے کے باوجود لوگ آخری وقت تک لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔
ایران کے غیور عوام، سخت انتخابی رقابت اور جوش وجذبے اور ہیجان کا دن بسر کرنے کے بعد اپنے ملک کے نئے صدر سے کچھ برحق مطالبات بھی رکھتے ہیںاسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کی شق نمبر ایک سو تیرہ کے مطابق صدر مملکت، رہبر انقلاب اسلامی کے بعد سب سے بڑے سرکاری عہدے کا حامل ہوتا ہے جو بنیادی آئین پر عمل اور ملک کے انتظامی امور چلانے کے لئے جو براہ راست رہبر انقلاب اسلامی سے مربوط ہیں، مکمل ذمہ دار ہوتا ہے اور عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد مجلس شورائے اسلامی یعنی پارلیمنٹ میں عدلیہ کے سربراہ اور آئین کی نگراں کونسل کے اراکین کی شرکت سے تشکیل پانے والے اجلاس میں قرآن مجید کے سامنے اور قوم کی نظروں کے سامنے کھڑا ہو کر اس بات کی قسم کھتا ہے کہ وہ ملک کی سربلندی اور عوام کی خدمت کے لئے اپنی ساری توانائی اور استعداد کو وقف کردے گا۔
انتخابی مہم کے دوران پائی جانے والی سخت رقابت اور شور وہیجان سے ہٹ کر اب جو بات قابل غور اور خاص اہمیت کی حامل ہے، وہ بنیادی آئین کے مطابق انتخابات کے نتائج کو تسلیم کیا جانا ہے اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی ہمیشہ اس بات پر تاکید کی ہے اور آپ نے نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کے موقع پر مشہدالمقدس میں عوامی اجتماع سے اپنے عظیم خطاب میں فرمایا تھا کہ انتخاب سے متعلق قوانین پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جانا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔آپ نے فرمایا تھا کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی آئے اور قوم کا فیصلہ جو بھی ہو اعتباراورقانون کی بات یہی ہے کہ انتخابات کے قوانین پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور عوام نے اپنے ووٹوں سے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ صرف انتخابات میں وہیں مداخلت کرتے ہیں کہ جب مخالفین انتخابات کے مقابلے میں آجائیں اور وہ قانون کے خلاف عمل کرنا چاہیں- باقی انتخابات کے دیگر امور میں ان کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔ بس قوانین پر عمل ہونا چاہئے اور یہ عوام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور اپنے ووٹوں سے اپنے فیصلے کا اعلان کریں۔
اس سال کے انتخابات کے ماحول سے بھی اسی بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ ایران کے غیور عوام اپنے ملک کو آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں اور انتخابات میں ٹرن آؤٹ سے بھی یہی واضح ہوا ہے۔ چنانچہ اب جبکہ صدارتی انتخابات مکمل ہو گئے ہیں اور نتیجہ سامنے آگیا ہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار کے نام کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے یہ بھی بنیادی آئین پر عمل کا ہی ایک جلوہ ہے کہ انتخابی حریف صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر حسن روحانی کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں۔