امریکہ ہرگز قابل اعتماد نہیں، محمد جواد ظریف
ایران کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکہ پر ہرگز کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ پر ہرگز کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اگر ایٹمی معاہدے سے اپنے ملک کو الگ کرلیتے ہیں تو دنیا کے تمام ممالک ہر طرح کے مذاکرات کے بارے میں ٹرمپ کے مقاصد پر شک و شبے کا اظہار کرنے لگیں گے۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ امریکہ کے غیر معتبر ہوجانے سے کوئی ملک اس سے مذاکرات نہیں کرے گا اس لئے کہ وہ صرف اپنے ذاتی مفادات کے درپے رہتا ہے۔
انھوں نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی پر امریکہ کی تصدیق اور یا ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں ایرن کے ردعمل کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ مسئلہ خود امریکہ سے مربوط ہے کہ جس کا ایٹمی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صرف آئی اے ای اے کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے پر ایران کے کاربند ہونے کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تہران ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ایران کا ردعمل بھی ایٹمی معاہدے سے نکلنا اور ایٹمی معاہدے سے پہلے والی صورت حال کی طرف تیزی سے واپس لوٹنا ہو سکتا ہے۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایسی صورت میں بھی ایران کی ایٹمی سرگرمیاں بدستور پرامن رہیں گی تاہم وہ کوئی بندش قبول نہیں کرے گا جبکہ موجودہ بندشیں بھی اس نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کی ہیں۔
انھوں نے ایرانی شہریوں سے ٹرمپ کے اظہار ہمدردی کو ایک ڈھونگ اور توہین کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ ایرانی شہریوں سے متعلق عائد کی جانے والی سفری پابندی ایرانی عوام کی توہین ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے اپنے نئے حکم نامے میں شمالی کوریا، چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، ونیزوئیلا اور یمن کے شہریوں پر امریکہ کے سفر پر پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ انھوں نے ٹوئٹر پر یہ دعوی بھی کیا ہے کہ امریکہ میں امن و سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہے اور جب تک امریکہ کو ان ملکوں کے شہریوں کے بارے میں اطمینان نہیں ہو جائے گا انھیں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اب تک مذکورہ ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں جبکہ نئے حکم نامے پر اٹھارہ اکتوبر سے عمل شروع ہو جائے گا اور اس بار لگائی جانے والی بندشوں کی کوئی حد بھی معین نہیں کی گئی ہے۔