Mar ۲۸, ۲۰۲۱ ۱۹:۳۷ Asia/Tehran
  • ایران و چین کے درمیان پچیس سالہ معاہدہ ... اچھا یا برا ؟

کئي برسوں تک مذاکرات کے بعد آخرکار ایران اور چین نے ، پچیس سالہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ۔ اسے ایران کی خارجہ پالیسی کے شعبے میں ایک بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے ۔

        ایران کی ایسنا نیوز ایجنسی نے اس معاہدے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ بہت سے ماہرین کے مطابق ، یہ معاہدہ ایران اور چین کے تعلقات میں نیا اور اہم موڑ ثابت ہوگا ۔ تقریبا چھے سال پہلے جب چین کے صدر نے ایران کا دورہ کیا تھا تو اسی موقع پر تہران اور بیجنگ نے ایک اعلامیہ جاری کرکے دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیر معمولی فروغ کا اعلان کیا تھا اور ایران کی تجویز پر چين نے ایران کے ساتھ پچیس سالہ تعاون معاہدے پر رضامندی ظاہر کی تھی  ۔

        اس اتفاق رائے کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے ملک کے دیگر تمام اہم اداروں کے  تعاون سے اور مختلف نشستوں کے انعقاد کے بعد " جامع تعاون پروگرام " کا مسودہ تیار کیا اور پھر وزير خارجہ جواد ظریف کے دورہ چین کے دوران ، یہ مسودہ چینی حکام کو دیا گيا ۔  چینی حکام نے بھی مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد اس پر اپنی رائے ظاہر کی اور پھر وزارت خارجہ نے اس مسودے  کو قانونی مراحل  سے گزارا اور  پھر گزشتہ برس کابینہ نے وزارت خارجہ نے مسودے کو معاہدے کی شکل دینے  کی اجازت دے دی ۔

 

  • اس معاہدے  میں کیا ہے اور ایران کو کیا حاصل ہوگا؟

تہران اور بیجنگ کے اعلان کے مطابق یہ معاہدہ سیاسی ، معاشی ، اسٹریٹجک اور ثقافتی ہے جس میں تمام شعبوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات  میں فروغ کی بات کی گئي ہے ۔

        معاہدے کا ایک اہم پہلو ، معاشی ہے کیونکہ معاہدے میں دونوں ملکوں نے  اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ سطح سے بہت زیادہ تجارتی تعاون کی گنجائش موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے میں دونوں ملکوں نے تیل ، صنعت ، معدن اور اسی طرح انرجی کے شعبے میں تعاون پر اتفاق کیا ہے ۔

اس معاہدے  میں اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ایران کی شرکت پر زور دیا گيا ہے جس پر چین کئي برسوں سے کام کر رہا ہے ۔

        کچھ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق ، اس معاہدے کی رو سے چین ، ایران کا تیل ہمیشہ در آمد کرے گا حالانکہ وہ اس وقت بھی ، امریکہ کی پابندیوں کے باوجود ، ایران سے تیل بدستور خرید رہا ہے ۔

        اسی طرح رپورٹوں کے مطابق بینکنگ ، انشورنس ، مشترکہ بینک ، ریلوے ، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری ، مکران کے ساحلوں میں ترقیاتی منصوبے جیسے مختلف امور ، تعاون کے اس معاہدے میں شامل ہيں ۔

        اسی طرح دونوں ملکوں  کے پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان تعاون میں فروع بھی اس معاہدے میں خاص طور پر شامل کیا گيا ہے ۔

کیا صرف ایران اور چین نے طویل مدتی تعاون کے معاہدے  پر دستخط کئے ہيں ؟

مشرقی ایشیا کے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ تہران کو چین کے ساتھ بہت پہلے سے اس قسم کے تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے چاہيے تھے  جس کی سب سے بڑی وجہ ، بین الاقوامی سطح پر چین کا موثر کردار ہے ۔

ماہرین کے مطابق ، حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر چین کی حیثیت اتنی زیادہ مضبوط ہو گئي ہے کہ بہت سے ملکوں نے ایران سے بہت پہلے ہی چین کے ساتھ اس قسم کا سنجیدہ تعاون شروع کر دیا ہے ۔  

        ماہرین کے مطابق اس قسم کے معاہدے کا یہ قطعی مطلب نہيں ہے کہ معاہدہ کرنے والے ملک ، چین سے وابستہ ہو جائيں گے اسی طرح یہ بھی ضروری نہيں ہے کہ یہ تمام ملک ، امریکہ مخالف بھی ہوں بلکہ چین کے ساتھ اس طرح کا تعاون کرنے والے بہت سے ملک ، امریکہ کے قریبی اتحادی بھی ہيں لیکن عالمی سطح پر معاشی اور تجارتی میدان میں چین کا کردار اتنا موثر اور اہم ہے کہ ان ملکوں نے اپنے مفادات کے لئے چین کے ساتھ اہم تعاون معاہدے کئے ہيں  یا پھر تجارت کے شعبے میں چین کے ساتھ تعاون میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے ۔ ان ملکوں کا جس طرح سے چین کے ساتھ تعاون جاری ہے اس کے مقابلے میں ایران اور چین کا تعاون کہیں نہيں ٹھہرتا بلکہ ایران اس معاملے میں ان سے کافی پیچھے ہے ۔

        ماہرین کے مطابق ایران کے مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ طاقتور ملکوں کے ساتھ تعلقات میں ایک  قسم کا توازن قائم کرے کیونکہ اسی صورت میں ایران ، مغرب و مشرق کے ساتھ تعاون سے قومی مفادات کا تحفظ اچھی طرح سے کر سکتا ہے۔

        یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کے ساتھ اہم تعاون کا یہ مطلب نہيں ہے کہ اس کے ساتھ مغرب کے ساتھ تعلقات قائم نہيں کئے جا سکتے بلکہ اگر ہم مغرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مغرب کے حریف یعنی چین اور روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھیں ۔

کچھ مغربی ملک کیوں اس معاہدے کے خلاف ہيں ؟

حالیہ مہینوں میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ اگر ایران نے اس معاہدے پر دستخط کئے تو وہ چین کے تسلط میں چلا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعوی ، مغربی تشہیراتی پروپگنڈے کا حصہ ہے کیونکہ بات یہ ہے کہ ان معاہدے سے مغربی ملکوں  کو کوئي فائدہ حاصل نہيں ہونے والا ہے بلکہ اس سے چین اور ایران کو فائدہ ہونے والا ہے اور عالمی سطح پر ایران کی پوزیشن مزید مضبوط بھی ہوگی ۔

        اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ یہ معاہدہ در اصل روڈ میپ ہے اور اس پر دستخط کے بعد اب ہر شعبے میں تعاون کے لئے متعلقہ حکام تفصیلات پر باضابطہ گفتگو کريں گے اور پھر اس پر فیصلہ ہوگا اس لئے ابھی اس کے خلاف جو کچھ کہا جار ہا ہے وہ محض افواہ ہے ۔

 

دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی ایران ایسا ہی معاہدہ کرنے پر تیار ہے !

ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاہدہ کرنے پر تیار ہے  کیونکہ اس طرح کے دو طرفہ تعاون کے معاہدے فریقین کے لئے ہی نہيں بلکہ عالمی تعاون میں فروغ کے لئے بھی مفید ہوتے ہيں ۔

 

خبروں  کے لئے ہمارا نیا فیس بک پیج جوائن کيجئے 

 ٹویٹر پر ہمیں فالو کریں 

یوٹیوب پر ڈراموں کے لئے سبسکرائب کریں 

 

ٹیگس