Jun ۲۰, ۲۰۲۱ ۱۱:۰۱ Asia/Tehran
  • ایران کے صدارتی امیدواروں نے اخلاق کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات اپنے اختتام کو پہونچ گئے اور آخرکار سید ابراہیم رئیسی بحیثیت صدر کے منتخب کر لئے گئے۔ قابل توجہ بات یہ کہ پورے انتخابی عمل میں اخلاقیات کو بالادستی حاصل رہی۔

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات اپنے اختتام کو پہونچ گئے۔ مجموعی طور پر سات امیدواروں میں سے آخرکار چار امیدوار ووٹنگ تک میدان میں رہے اور ان میں سے سید ابراہیم رئیسی بحیثیت صدر کے منتخب کر لئے گئے۔

سات میں سے تین امیدواروں نے اپنا نام واپس لیا جن میں سے دو امیدواروں علی رضا زاکانی اور سعید جلیلی نے سید ابراہیم رئیسی کی حمایت کرتے ہوئے اپنا نام واپس لیا جبکہ مہر علیزادہ نے کسی کی حمایت کئے بغیر اپنا نام واپس لیا۔ قابل توجہ بات رہی کہ اس پورے سلسلے میں اسلامی اخلاق کے نمایاں گوشے سامنے آئے اور انتخابی مناظروں کے دوران سید ابراہیم رئیسی کے اصل اور سخت حریف سمجھے جانے والے افراد نے بھی واضح اکثریت کے ساتھ انکی کامیابی کے بعد نہایت ادب و احترام کے ساتھ انہیں مبارکباد پیش کی اور ساتھ ہی فرائض کی بہتر انجام دہی کے لئے خدائے سبحان کی بارگاہ میں انکے لئے دعا کی۔

ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ رہا کہ ان تمام تہنیتی پیغاموں میں عوام کو انتخابات کا اصل ہیرو قرار دیا گیا کہ جنہوں نے عالمی وبا کورونا کے خطرات اور دشمن کے شدید پروپیگنڈے کے باوجود انتخابات میں قابل توجہ شرکت کی اور اس طرح اپنی جمہوریت کا زوردار جشن منایا۔ آئیے اب درج ذیل سطروں میں منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی کے دیگر حریفوں کے تہنیتی پیغام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:

ایران کے تیرہویں صدارتی امیدوار سید قاضی زادہ ہاشمی نے اپنے حریف امیدوار سید ابراہیم رئیسی کے صدر منتخب ہونے پر انہیں مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اپنے تہنیتی پیغام میں تحریر کیا ہے:

’’میں اپنے تئیں میدان انتخابات میں عوام کی پرجوش اور اقتدار آفریں شرکت پر رہبر انقلاب اسلامی کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے انتخابات سے قبل اپنے رہنما بیانات کے ذریعے سبھی کے لئے راہ کو واضح و روشن کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ میں عوام کے ووٹوں کی حمایت کرتے ہوئے عوام کے منتخب صدر حضرت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی خدمت میں بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ایرانی عوام کی خدمت کے لئے انکی روز افزوں توفیق کی خدائے متعال سے التجا کرتا ہوں۔‘‘

ایک اور صدارتی امیدوار محسن مہر علیزادہ تھے کہ جو انتخابی مباحثوں میں منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی کے ایک اہم حریف تصور کئے جا رہے تھے اور مباحثے و مناظرے کے دوران دونوں حریفوں کے درمیان سخت اور گرما گرم بحثیں بھی چھڑیں، مگر انتخابات مکمل ہو جانے کے بعد انہوں نے بھی انتخابی مہم کے دوران اپنے حریف سید ابراہیم رئیسی کو ان الفاظ میں مبارکباد پیش کی:

’’حضرت حجت الاسلام و المسلمین جناب آقائے سید ابراہیم رئیسی، میں تیرہویں صدارتی انتخابات کے مقابلے میں جنابعالی کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ نصرت الٰہی کے زیر سایہ، شہدا کی ارواح طیبہ، امامِ شہدا (بانی انقلاب)، رہبر انقلاب اسلامی کی رہنمائیوں اور ایران کی سرفراز اور نجیب قوم کی ہمراہی کے طفیل میں معیشت، رفاہ، آرام و آسائش کی فراہمی اور ایرانی عوام کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے تعلق سے اپنے کئے وعدوں پر عمل پیرا ہونے اور قومی و بین الاقوامی سطح پر قوم کے وقار کو بلند کرنے میں کامیاب و کامران رہیں۔‘‘

منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی کے ایک اور حریف اور نامزد امیدوار محسن رضائی نے اپنے تہنیتی پیغام میں تحریر کیا ہے:

’’اٹھارہ جون کے صدارتی انتخابات نے ایک بار پھر دنیا والوں اور عالمی مبصرین کی نگاہوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ ایران کی سربلند قوم اسلامی نظام کی پاسداری، اسکی تقویت اور اسکی حفاظت کی راہ میں کسی کوشش سے دریغ نہیں کرتی اور شک نہیں کہ اس عظیم امتحان نے ایرانی قوم کی مجاہدانہ جدو جہد کے باب میں ایک اور زریں ورق کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس عظیم اور باشکوہ اتفاق پر میں قائد انقلاب اسلامی، ایران کی باشرف اور فداکار قوم اور انکے منتخب کردہ (صدر) اپنے برادر ارجمند، آیت الله جناب حاج سید ابراہیم رئیسی صاحب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس عظیم اور سنگین ذمہ داری کی ادائگی کے لئے انکی مزید توفیقات اور انکے دوام کا خدائے سبحان کی بارگاہ میں طلبگار ہوں۔‘‘

ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں آٹھویں منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی کے ایک اور سخت حریف عبد الناصر ہمتی نے بھی کامیابی کے بعد انہیں ان الفاظ میں مبارکباد پیش کی:

’’برادر گرامی آیت‌ الله جناب آقائے سید ابراہیم رئیسی، سلام و احترام کے ہمراہ، جنابعالی کے تیرہویں صدر منتخب ہونے پر میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایران کے باشرف اور سربلند عوام کو حقیقتاً امید، آرام سکون اور چین سے لبریز ایک زندگی گزارنے کا حق ہے۔ مجھے امید ہے کہ جنابعالی اپنے دور حکومت میں قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی رہنمائیوں کے زیر سایہ اپنے اقدامات اور تدبیروں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کی سربلندی، عوامی کی زندگی اور معیشت کے معیار کی بہتری اور انکے سکون چین کے اسباب فراہم کریں گے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات کے لیے سات امیدوار میدان میں آئے۔ علی رضا زاکانی، محسن رضائی، محسن مہر علی زادہ، سید ابراہیم رئیسی، عبد الناصر ہمتی، سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، علی رضا زاکانی، محسن رضائی اور محسن مہر علی زادے بحیثیت امیدوار کے اپنے انتخابی سفر کا آغاز کیا تاہم ان میں تین افراد علی رضا زاکانی، محسن مہر علی زادہ اور سعید جلیلی نے اپنا نام واپس لے لیا اور مقابلہ باقی چار حریفوں کے درمیان رہا۔

 

 

 

ٹیگس