Nov ۰۴, ۲۰۱۷ ۱۸:۰۷ Asia/Tehran
  • سعودی دباؤ اور دھمکیاں، لبنانی وزیراعظم مستعفی

لبنان کے وزیراعظم سعد حریری نے ہفتے کے روز سعودی عرب میں بیٹھ کر اپنے عہدے سے استفعی دے دیا۔

لبنانی صدر کے دفتر نے بھی سعد حریری کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بیرون لبنان سے بذریعہ فون اپنے استعفے کی اطلاع دی۔
سعودی عرب کے العربیہ ٹیلی ویژن سے اپنے خطاب میں سعد حریری نے اپنے استفعے کی متعدد وجوہات بیان کیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس وقت لبنان کے حالات ایسے ہی ہیں کہ بقول ان کے جیسے اس وقت تھے کہ جب ان کے والد اور اس وقت کے لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کو قتل کر دیا گیا تھا۔
پـچھلے چند روز سے سعودی سوشل میڈیا نے بھی سعد حریری پر دباؤ میں شدید اضافہ کر دیا تھا اور حتی ان کی حکومت کے کام ٹھپ ہونے کے علاوہ ان کو استعفے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
لبنان کے سیاسی اور صحافتی حلقے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر سعد حریری کے غیر متوقع استعفے کے اعلان کو سعودی حکومت کے شدید دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
لبنان کے سابق وزیر انصاف سلیم جریصاتی نے سعد حریری کے استعفے کو انتہائی مشکوک قرار دیا ہے۔ لبنانی پارلیمنٹ کی سابق رکن نزیہ منصور نے کہا ہے کہ سعد حریری کو ریاض حکومت کے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔
لبنانی فوج کے سابق سربراہ امین حطیط نے بھی کہا ہے کہ سعد حریری کو سعودی حکام کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا تھا اور انہوں نے کہا کہ سعودیوں نے انہیں اتنی بھی مہلت نہیں دی کہ وہ معمول اور ضابطوں کے مطابق اپنا استعفی پیش کرتے۔
معروف لبنانی صحافی قاسم قیصر کا کہنا ہے کہ سعد حریری کا استعفی ان کا اپنا نہیں بلکہ سعودیوں کا فیصلہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت لبنان کے ماحول کو دھماکہ خیز بنانے کی سازش کر رہی ہے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے سعد حریری کو استعفے پر مجبور کیا ہے اور بصورت دیگر انہیں دہشت گردانہ حملے میں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان کیا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سعد حریری نے سعودی عرب میں بیٹھ کر دیئے جانے والے اپنے استعفے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بھی بعض بے بنیاد دعوے کیے ہیں۔
سعودی عرب میں بیٹھ کر استعفی دینے اور ایران کے خلاف الزام تراشیوں سے واضح ہو گیا ہے کہ سعد حریری کے غیر متوقع استعفے میں آل سعود حکومت نے اصل کردار ادا کیا ہے۔

ٹیگس