اسرائیل کی کوئی بھی غلطی خودکشی ہوگی، مزاحمتی محاذ اور شام مضبوط پوزیشن میں ... مقالہ
تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسرائیلی تجزیہ نگار ایال زیسر کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے شام میں ایران کی موجودگی پر روک لگائے میں تاخیر کر دی ۔
جب شامی فوج نے جولان کی پہاڑیوں کے کچھ حصوں کو تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرایا تو اس وقت اسرائیل کو چاہئے تھا کہ وہ مداخلت کرتا اور شامی فوج کو یہ آپریشن کرنے سے روک دیتا ۔ بشار اسد نے تل ابیب کی کوئی بھی شرط قبول کئے بغیر ہی جولان کی پہاڑی والے علاقے کو واپس لے لیا جو 2011 کے بعد شامی فوج کے قبضے سے نکل گئے تھے ۔
اسرائیل ٹو ڈے اخبار میں اپنے مقالے میں زیسر نے لکھا کہ اسرائیل کو چاہئے کہ اب بھی شام میں ایران اور حزب اللہ کو اپنی پوزیشنیں مزید مضبوط کرنے کا موقع نہ دے تاکہ اسرائیل کے لئے حالات مزید خراب نہ ہوں ۔
شامی امو کے ماہر کہے جانے والے زیسر کا کہنا ہے کہ ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے وسیع شجاعانہ فیصلے کی ضرورت ہے تاہم ساتھ ہی یہ بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ مشرق وسطی میں کوئی نئی جنگ کا آغاز نہ ہونے پائے ۔ زیسر کا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے ۔
زیسر ہی نہیں بہت سے تجزیہ نگار اس وقت یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بری طرح محاصرے میں آ گیا ہے ۔ اسرائیل نے تشدد اور غاصبانہ پالیسیوں کے ذریعے وجود میں آنے والے اپنے ناجائز وجود کو باقی رکھا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی پالیسیوں پر رد عمل بھی ضرور ہوتا ہے ۔
اس وقت غزہ کے حالات ایسے ہیں کہ وہاں کے باشندے فلسطینی ہر جمعے کو مظاہرے کر رہے ہیں جن کے اہل خانہ کو صیہونی حکومت ان کے گھروں سے بے دخل کرکے ان کے گھروں میں صیہونیوں کو آباد کر دیا ہے ۔
شام کے محاذ پر اسرائیل کی پوزیشن بہت خراب ہے ۔ شام اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جو امریکا، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک نے ترکی، قطر اور سعودی عرب جیسے علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر تیار کی تھی ۔
اسرائیل کے تعلقات اردن اور مصر کی حکومتوں سے تو ہیں تاہم ان دونوں ممالک کے عوام اسرائیل کو آج بھی غیر قانونی حکومت مانتے ہیں ۔ ایسے حالات میں اسرائیل کے لئے اپنا وجود باقی رکھ پانا سخت ہو گیا ہے ۔ یہ صورتحال اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کو اسرائیل کی اس حالت کا پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا اسی بنا پر انہوں نے 1967 کی سرحدوں پر اسرائیل اور فلسطین کے قیام کی بات کہی تھی جس کی صیہونی وزیر اعظم نتن یاہو نے مذمت کی تھی ۔ نتن یاہو توسیع پسندی کی پالیسی پر گامزن رہے اور انہوں نے اسرائیل کو ایسی حالت میں پہنچا دیا کہ اسرائیل کا وجود باقی رہ پانا سخت ہو گیا ہے۔