کیا امریکہ افغانستان سے نکلے گا؟/ مقالہ
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے باوجود فریقین کے درمیان بداعتمادی کی فضا پوری طرح قائم ہے کیونکہ ابھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ٹرمپ انتطامیہ طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پابندی کرے گی یا محض آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں استفادہ کرنے کے بعد امریکہ معاہدے سے با ہر نکل جائے گا
کیا امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا
تحریر: عظیم سبزواری
٭٭٭٭
اٹھارہ ماہ کے مذاکرات کے بعد امریکہ اور طالبان نے اُس معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں جسے فریقین نے امن معاہدے کا نام دیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران طالبان کے سینیئر رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔
چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ چار بنیادی حصوں پر مشتمل ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
- طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو۔
- افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔
- طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
- انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے نکات کی تکمیل بنیادی طور پر بعد والے دو نکات کی کامیابی سے مشروط ہے۔
معاہدے پردستخط کے ساتھ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی وزیر جنگ مارک ایسپر اور صدر اشرف غنی کے درمیان ہونے والی ملاقات کا مشترکہ اعلامہ جاری کیا گيا ہے جو ایک تمہید اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔
اس اعلامیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور افغانستان ، القاعدہ کے خراسان ونگ سمیت ایسے تمام عالمی دہشت گرد گروہوں کے خلاف تعاون جاری رکھیں جو افغانستان کی سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے مقابلے میں امریکہ نے افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور تمام سرکاری اداروں کی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے احترام کا یقین دلایا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں سہولت پیدا کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے اور صدر اشرف غنی اور مارک ایسپر کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ کا متفقہ نکتہ یہ ہے کہ فریقین کی جانب سے معاہدے پر ٹھیک ٹھیک عملدرآمد ہوا تو امریکی فوجی آئندہ چودہ ماہ کے اندر اندر افغانستان سے باہر نکل جائیں گے۔
البتہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے باوجود فریقین کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پوری طرح قائم ہے کیونکہ ابھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ٹرمپ انتطامیہ طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پابندی کرے گی یا محض آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں استفادہ کرنے کے بعد امریکہ معاہدے سے با ہر نکل جائے گا؟
جو بات اس شبہے کو تقویت دیتی ہے وہ امریکی وزیر جنگ کے ساتھ کابل آنے والے نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹنبرگ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو کے ساتھ ملاقات کے دوران دیا ہے۔
افغان چیف ایگزیکٹیو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ینس اسٹولٹنبرگ نے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات میں وعدہ کیا ہے کہ معاہدہ شمالی اقیانوس نیٹو کے فوجی، طے شدہ معاہدے کے مطابق افغانستان میں موجود اور افغان فوج کی مدد کر تے رہیں گے۔
یہیں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب نیٹو افغانستان میں موجود ہو تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے باہر نکل گیا؟