فلسطینی کارکن کا قتل اور فلسطینی انتظامیہ کا کردار
فلسطینی انتظامیہ نے سیاسی کارکن نزار بنات کا قتل کرکے ایک بار پھر امریکا و صیہونی حکومت کے سامنے، فلسطینی مجاہدین اور مخالفین کے قتل و سرکوبی کے حوالے سے اپنا کردار پیش کر دیا ہے۔
گزشتہ جمعرات کو آدھی رات کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے 20 سیکورٹی اہلکاورں نے نزار بنات کے گھر پر حملہ کر دیا اور اس کے دو گھنٹے بعد ان کی موت کی خبر سامنے آ گئی۔
بتایا جا رہا ہے کہ سر میں شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے نزار بنات کی موت واقع ہوئی ہے۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی پورے فلسطین خاص طور پر غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینی انتظامیہ کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور اعتراض کا سلسلہ، فلسطینی کی سرحدوں کو عبور کر گیا۔
اب یہاں پر دو سوال سامنے آتے ہیں، پہلا یہ کہ فلسطینی انتظامیہ نے یہ مجرمانہ اقدام کیوں کیا؟ اور دوسرا یہ کہ اس قتل میں اسرائیل کا کیا کردار رہا تھا اور اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت کی تشکیل میں اس کا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ نے نزار بنات کو قتل کرکے اپنے ایک سخت ناقد کا منہ بند کر دیا جس نے اس کی مالی بد عنوانی کا انکشاف کیا تھا۔
اس کے علاوہ فلسطینی انتظامیہ اس بات سے بھی ناراض ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکا و اسرائیل اسے پہلے کی طرح اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ میں فلسطینی انتظامیہ کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا تھا اور ڈیل آف سینچری میں بھی اسے کوئی مقام نہيں دیا گیا تھا۔
11 روزہ جنگ میں بھی فلسطینی انتظامیہ کا حاشیہ پر ہونا سبھی کے لئے ثابت ہو گیا تھا کیونکہ امریکا نے مصر اور قطر کے ذریعہ حماس سے گفتگو کی۔ ان سب باتوں کے مد نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی انتظامیہ، امریکا و اسرائیل کو یہ دیکھانا چاہتی تھی کہ وہ اب بھی فلسطینی مزاحمت کاروں، مجاہدین اور مخالفین کے قتل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
جہاں تک نزار بنات کے قتل سے صیہونی حکومت کے فائدے کی بات ہے تو یہاں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی انتظامیہ کے ذریعے اپنے ایک سر سخت مخالف کو راستے سے ہٹا دیا اور ساتھ ہی فلسطینیوں کے درمیان اختلافات بھی پیدا کر دیا جس سے پیدا ہونے والے حالات سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت کو بھی شاید غزہ پر ایک نئے محلے کی ضرورت ہے۔
اس لحاظ سے نزار بنات کے قتل میں نفتالی بنیت کی حکومت کے نئے فوجی پروگرام پوشیدہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بنیت بھی فلسطینیوں سے دشمنی میں نتن یاہو سے کم نہيں ہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ معاملوں میں جیسے غاصب صیہونی کالونیوں میں رہنے والوں سے رابطے کے معاملے میں وہ زیادہ خطرناک ہیں۔
در ایں اثنا جو چیز زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ چاہے 11 روزہ جنگ کا معاملہ ہو، جو بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں کی حمایت میں شروع ہوا تھا، یا پھر نزار بنات کے قتل کا مسئلہ ہو، فلسطینیوں کا اتحاد و یکجہتی کی تصاویر زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے اور یہ چیز فلسطین کے روشن مستقبل کو زیادہ پر امید کرتی ہے۔
بشکریہ
العالم