Aug ۱۲, ۲۰۲۵ ۱۰:۲۲ Asia/Tehran
  • غزہ پر عرب خاموشی شرمناک، سعودی عرب یمن سے ٹکراؤ نہ کرے، عبدالمالک

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے غزہ کے مسئلے پر عرب حکام کے موقف کو شرمناک قرار دیتے ہوئے سعودی عرب کو انتباہ کیا ہے مغرب کی چال میں آکر یمن سے تصادم کی راہ اختیار نہ کرے۔

سحرنیوز/عالم اسلام: یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ پر اسرائیلی مظالم پر عرب حکومتوں کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے سعودی عرب پر بھی براہ راست الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یمن پر حملوں میں شریک ہے۔

الحوثی نے دعوی کیا کہ سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ مل کر یمن کو نشانہ بنانے کی سازشوں میں شامل ہے، خصوصا بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں صہیونی سرگرمیوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ یمن پر جارحیت کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور سعودی عرب اس میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، انصاراللہ کو خفیہ ذرائع سے ایسی معلومات ملی ہیں جو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فوجی و انٹیلیجنس تعاون موجود ہے۔

اس سے قبل انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن حزام الاسد نے بھی متنبہ کیا تھا کہ ہمارے میزائل اسرائیل کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں، لیکن ہم ابوظہبی اور ریاض کی سازشوں سے غافل نہیں۔ یمن کے اندر آپ کے ایجنٹوں کی کوئی بھی حرکت سے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

یمن میں حالیہ کشیدگی اور انصاراللہ کی قیادت کی سخت تنبیہ کے بعد یہ سوال شدت اختیار کرگیا ہے کہ آیا سعودی عرب کو دوبارہ اس جنگ میں کھینچا جارہا ہے جس سے وہ بظاہر کنارہ کش ہوچکا تھا۔ مغربی میڈیا، خاص طور پر امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ کھل کر عربستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ یمن میں عسکری کردار دوبارہ سنبھالے۔

امریکی ویب سائٹ میڈیا لائن نے ایک مضمون میں سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یمن پر زمینی اور فضائی حملے کرے۔ مضمون میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یمنی گروہ عالمی سمندری گزرگاہوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور ان کے خلاف براہ راست کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے۔

مڈل ایسٹ آئی نے بھی ایک رپورٹ میں یمن سے سعودی ترقیاتی منصوبوں پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ ملک عبداللہ پورٹ کی کارکردگی میں 70 فیصد کمی آئی ہے، جو سعودی وژن 2030 کے تحت جاری منصوبوں کے لیے شدید دھچکہ ہے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحری راستے کی سیکورٹی یقینی نہ کی وجہ سے کئی جہاز طویل اور مہنگا راستہ، یعنی کیپ آف گڈ ہوپ کو ترجیح دے رہے ہیں۔

سعودی قیادت بظاہر براہ راست عسکری مداخلت سے گریز کی پالیسی پر قائم ہے۔ ریاض جانتا ہے کہ یمن کے ساتھ دوبارہ جنگ میں الجھنا اس کی داخلی سلامتی، معیشت، اور وژن 2030 کے اہداف کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب تاحال سفارتی حکمت عملی اور علاقائی اتحاد کی مدد سے اس دباؤ کو ختم کی کوشش کررہا ہے۔

دوسری طرف ایک ایسا سیکورٹی اتحاد وجود میں آچکا ہے جو کہ امریکہ کی قیادت میں سعودی عرب، اسرائیل، امارات، بحرین اور دیگر عرب ممالک پر مشتمل ہے۔ یہ اتحاد لِنک 16 نامی جدید نیٹ ورک پر انحصار کرتا ہے جو فوری انٹیلیجنس شیئرنگ اور میزائل ٹریکنگ میں مدد دیتا ہے۔

سعودی عرب میں امریکہ نے پیٹریاٹ اور تھاڈ دفاعی نظام نصب کیے ہیں، جو یمنی میزائلوں کو سرحد عبور کرنے سے قبل ہی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل میں آئرن ڈوم اور ہیٹس جیسے نظاموں کی تعیناتی بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس پورے نظام کی نگرانی امریکہ اپنے فوجی اڈوں سے کررہا ہے۔

یہ اتحاد ظاہر کرتا ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان ایک غیر رسمی، مگر گہرا سیکورٹی تعاون موجود ہے، اگرچہ ان کے درمیان اب تک رسمی سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے۔

ریاض اس وقت ایک انتہائی نازک توازن پر چل رہا ہے۔ ایک طرف اس کی خواہش ہے کہ وہ جنگ سے دور رہے تاکہ ترقیاتی ایجنڈا متاثر نہ ہو، اور دوسری طرف امریکی و مغرب کی طرف سے دباؤ ہے جو اسے میدان جنگ میں کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ اگر سعودی عرب غلط اندازہ لگاتا ہے اور دوبارہ یمن میں مداخلت کرتا ہے تو نہ صرف اس کی علاقائی حیثیت متاثر ہوگی، بلکہ وہ خود کو ایک ایسے عسکری دلدل میں پائے گا جہاں سے نکلنا آسان نہ ہوگا۔ یہ صورت حال نہ صرف اندرونی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کے لیے سیاسی، سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کھڑے کرے گی۔

آج سعودی عرب ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ کیا وہ محتاطی پالیسی پر قائم رہ پائے گا یا مغرب کے جارحانہ مطالبات کے آگے جھک جائے گا؟

آئندہ برسوں میں نہ صرف یمن کی صورتحال بلکہ پورے خطے کا نقشہ اس فیصلے پر موقوف ہے۔

ٹیگس