علاقے میں نئی تبدیلی کے آثار
شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان نے ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد شام کی علاقائی واپسی تقریبا پوری جائے گی۔ تاہم اس کے باوجود دمشق کا آخری علاقائی دشمن، اس کی جنوبی سرحدوں پر باقی ہے یعنی صیہونی حکومت۔
سحرنیوز/ عالم اسلام: 1948 کے بعد سے شام اور اسرائیل کے درمیان تصادم اور جد و جہد پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن کچھ عرب ممالک کی جانب سے نام نہاد ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد، اسرائیل میں انتہا پسند کابینہ بننے اور شدت پسند حکومت کی تشکیل کے بعد شام کے سامنے ایک نیا چیلنج ہے۔
تل ابیب کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بھی دمشق ہے کیونکہ مصر اور اردن تو پہلے ہی اس کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہيں۔
امریکا کے سابق سفارتکار فیڈریک ہاف نے اپنی کتاب ریجنگ فار دا ہائٹس میں ذکر کرتے ہیں کہ دشمن، اسرائیل کی سیکورٹی کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ مراکش اور سوڈان کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بحرین اور یواے ای سے صرف نام کے لئے ہی معاہدہ کر رکھا ہے۔ حالانکہ ان ممالک سے کوئی بھی اسرائیل کے لئے اتنا بڑا چیلنج نہیں رہا ہے جتنا بڑا چیلنج شام ہے۔
حالانکہ آئے دن شام پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن صیہونی حکومت سب سے زیادہ خوفزدہ بھی دمشق کی جانب سے رہتی ہے۔
فی الحال تو شام، صیہونی حکومت کے لئے کوئی فوجی خطرہ نہیں ہے لیکن اس علاقے کے سیاسی گھیرے کو گھمانے کی اس کی توانائی سے اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک اچھی طرح سے واقف ہیں۔ اس کی توانائی کی وجہ سے وہ دیگر عرب ممالک کی بہ نسبت اسرائیل کے لئے سب سے شدید چیلنج ہے۔
امریکا اور اس کے کچھ اتحادی ممالک نے 2011 میں شام میں داخلی جنگ شروع ہونے سے پہلے تک دمشق اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مسلسل کوشش کی گئیں لیکن وہ نہ تو شام کو خوفزدہ کرسکے اور نہ ہی اس کو جھکا سکے۔
جان بوئیکن نے اپنی کتاب شام اینڈ اسرائیل میں لکھا ہے کہ سب سے بڑی بات شام کا فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ میں نہیں آنا ہے جبکہ اردن اور مصر نے نام نہاد امن کے بدلے امریکی گاجر پکڑ لی لیکن دمشق کسی بھی دباؤ میں نہيں آیا اور آج بھی وہ اپنی اسی پالیسی پر قائم ہے۔
فلسطینی تنظیموں پر اور لبنان میں شام کے اثر و رسوخ سے بھی اسرائیل کی نیند اڑی رہتی ہے۔ اب علاقائی ممالک کی جانب سے ایک بار پھر دمشق کو اہمیت دیئے جانے اور اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے صیہونی حکومت کی نیند حرام ہوگئی ہے اور اس نے جو چال دہشت گرد گروہوں پر چلی تھی، اس پر اب پانی پھرتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
*مقالہ نگار کی رای سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*