Apr ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۸:۰۵ Asia/Tehran
  • منشور ’’انقلاب ِ اسلامی کا دوسرا مرحلہ‘‘  - (مکمل متن کا پہلا حصہ)

رہبر مظلومین و محرومین جہان،علمدارِ ولایت سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نے ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں انقلاب اسلامی کے گذشتہ چالیس سالوں میں تیزی سے حاصل ہونے والے اہداف اور کامیابیوں کا ذکر اور عالمی طاقتوں کے اِس الٰہی انقلاب کو روکنے کے تمام  مذموم عزائم  کی مسلسل مختلف محاذوں پر ناکامی  کا ذکر فرماتے ہوئے اِس الہی اور مہدوی انقلاب کے مزید عالمی اور عظیم الشان اہداف کا ذکر فرمایا اور  پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد،اسلامی انقلاب کے دوسرے مرحلے می

دوسرا قدم یا انقلاب کا دوسرا مرحلہ کہ جو  عظیم الشان اہداف بالخصوص عالمی عدل و انصاف پر مبنی الہی حکومت کا قیام یعنی مہدوی حکومت کے لیے جدوجہد کرنا یعنی تمام انسانوں کو ظلم وستم سے نجات دینے والے  خدا کی آخری حجت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے لیے میدان ہموار کرنا اور آمادگی کرنا اور عالمی اسلامی  پاک و پاکیزہ تمدن کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے سے عبارت ہے۔ اِس بارے میں مزید آگاہی کے لیے ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای کے اِس عظیم الشان مختصر،حکیمانہ  اور جامع خطاب کا متن قارئین کی خدمت میں حاضر ہے ،ضرور مطالعہ کیجئے۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علیٰ سیّدنا محمّد و آله‌ الطّاهرینو صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الیٰ یوم الدّین

انقلاب کا’’خودسازی، معاشرہ سازی اور تمدن سازی کےدوسرے مرحلے‘‘ میں قدم رکھنا

ظلم و ستم کی ماری تمام اقوام میں سے بہت ہی کم اقوام نے انقلاب بپا کرنے کی ہمّت کی ہے۔ اِن قیام کرنے اور انقلاب بپا کرنے والی اقوام میں سے بھی کم ہی ایسی اقوام دِکھائی دیتی ہیں جو اپنے ہدف تک پہنچ گئی ہوں اور حکومتیں تبدیل کرنے کے علاوہ اپنے انقلابی اہداف کی بھی حفاظت کی ہو۔ لیکن ایرانی قوم کا عظیم الشان انقلاب جو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا اور مکمل عوامی انقلاب ہے، وہ واحد انقلاب ہے کہ جو چار دہائیوں پر مشتمل اپنا قابلِ فخر دورانیہ اپنے اعلیٰ مقاصد میں خیانت کیے بغیر گزار چکا ہے اور بظاہر ناقابلِ برداشت نظر آنے والے وسوسوں کے سامنے اُس نے اپنی کرامت اور اپنے نعروں کی حقیقت کا پاس رکھا ہے اور اب خودسازی، معاشرہ سازی اور تمدن سازی کےدوسرے مرحلے میں قدم رکھ چکا ہے۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے درود و سلام ہو اِس ملّت پر؛ اُس نسل پر کہ جس نے اِس کا آغاز کیا اور اِسے جاری رکھا اور اُس نسل پر جو اب دوسرے چالیس سالہ دورانیے کے عظیم اور عالمی عمل(Process) میں داخل ہونے جا رہی ہے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی، دنیا کے جدید دور کا آغاز

جب دنیا مادی مشرق اور مادی مغرب میں تقسیم ہو چکی تھی اور ایک عظیم دینی تحریک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، تب ایران کے اسلامی انقلاب نے پوری طاقت و جلال کے ساتھ میدان میں قدم رکھا۔ اُس نے سارے لگے بندھے سانچے توڑ دیے۔ اور فرسودہ نظاموں کا عبث ہونا دنیا کے سامنے آشکار کر دیا۔ اُس نے دین و دنیا کو یکجا کر کے پیش کیا اور ایک نئے عہد کے آغاز کا اعلان کیا۔ ایسے حالات میں گمراہی اور ظلم و ستم کے سرپرستوں کا ردعمل ایک فطری امر تھا، لیکن یہ ردّ عمل ناکام رہا۔ جدّت پسندی کے سارے دعویداروں نے اُس نئی اور منفرد آواز کو نہ سننے کے دِکھاوے سے لے کر اُسے خاموش کرنے کی وسیع اور مختلف کوششوں تک، جو کچھ کیا وہ اُنہی کو اپنی حتمی موت کے نزدیک لے کر گیا۔ اب جبکہ انقلاب اپنے چالیس سالانہ جشن اور چالیس عشرہ ہائے فجر (انقلاب کی سالگرہ) منا چکا ہے، تو اُن دو دشمنوں میں سے ایک دشمن تو نابود ہو چکا ہے، جبکہ دوسرا (یعنی امریکہ) ایسی مشکلات میں گھِرا ہوا ہے جو اُس کی آخری سانسوں کی خبر دے رہی ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب اپنے نعروں کی حفاظت و پابندی کرتے ہوئے مسلسل آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

انقلاب اسلامی کے عالمی، فطری، درخشاں اور جاودانی نعرے

ہر چیز کے لیے مفید عمر اور تاریخِ استعمال فرض کی جا سکتی ہے، لیکن اِس دینی انقلاب کے عالمی نعرے اِس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ نعرے ہر گز بےکار اور بے فائدہ نہیں ہوں گے کیونکہ یہ نعرے ہر زمانے میں انسانی فطرت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ آزادی، اخلاق، روحانیت، عدالت، خودمختاری، عزّت، عقلانیت اور بھائی چارہ، اِن میں سے کوئی بھی کسی ایک نسل یا ایک معاشرے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ وہ کسی ایک زمانے میں عروج پر ہو اور دوسرے زمانے میں زوال پذیر ہو جائے۔ ایسی عوام کا ہرگز تصور نہیں کیا جا سکتا کہ جو اِن بابرکت اغراض و مقاصد سے بد دل ہو جائیں۔ جہاں بھی مایوسی اور بد دلی پیش آئی ہے تو وہ حکومتی عہدیداروں کی اِن دینی اقدار سے روگردانی کی وجہ سے پیش آئی ہے، اِن اقدار کی پابندی اور اِن کے نفاذ میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے (کبھی مایوسی) پیش نہیں آئی۔

انقلابی نظام کے نظریے کا ابدی دفاع

ایک زندہ اور باارادہ شے کی طرح، اسلامی انقلاب بھی ہمیشہ سے لچکدار، اور اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کے لیے آمادہ رہا ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اپنے اصل وجود پر نظرِ ثانی کرے یا جلد ہی کسی چیز سے متاثر ہو جائے۔ انقلابِ اسلامی، تنقید پر مثبت حسّاسیت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اُسے نعمتِ خداوندی اور گفتار کے بے عمل غازیوں کے لیے ایک تنبیہ سمجھتا ہے، لیکن کسی بھی طریقے سے اپنی اُن اقدار سے دور نہیں ہوگا جو الحمد للہ لوگوں کے دینی ایمان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔اسلامی انقلاب، نظام سازی کے بعد جمود اور خموشی سے نہ دوچار ہوا ہے نہ ہوگا۔ اور نہ ہی اِس انقلابی جوش و ولولے اور سیاسی و معاشرتی نظام میں کوئی تضاد اور ناہمواری ہے، بلکہ یہ جوش و ولولہ ابد تک انقلابی نظام کا دفاع کرتا رہے گا۔

حقائق )یعنی کیا ہے( اور ضروریات (یعنی کیا ہونا چاہئے( کے درمیان فاصلہ

اسلامی جمہوریہ قدامت پسند اور تازہ نظریات و حالات کے مقابلے میں احساس و ادراک سے عاری نہیں ہے لیکن اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند ہے اور دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ اپنی حدود کے معاملے میں شدید حسّاس ہے۔ اپنے اصلی خطوط سے کبھی بے پرواہی نہیں برتتا۔ اُس کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ اُسے کیوں باقی رہنا ہے اور کیسے باقی رہنا ہے؟ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضروریات )یعنی کیا ہونا چاہئے( اور حقائق (یعنی کیا ہے) میں فاصلہ، آرزومند ضمیروں کو ہمیشہ سے اذیّت میں مبتلا رکھے ہوئے ہے، لیکن اِس فاصلے کو حتماً طے (ہوکر ختم) ہونا ہے اور پچھلے چالیس سالوں میں کئی مواقع پر بارہا طے ہو چکا ہے اور بے شک آئندہ بھی مؤمن ، دانا اور بارغبت جوان نسل، زیادہ قوّت سے اِسے طے کرے گی۔

اسلامی انقلاب؛ ایران اور ایرانی قوم کی سربلندی کا سرچشمہ

ایرانی قوم کا اسلامی انقلاب، طاقتور مگر مہربان، معاف کرنے والا، یہاں تک کہ مظلوم رہا ہے۔ یہ ایسے کسی بھی افراطی اقدام اور کَج روی کا مرتکب نہیں ہوا جو بہت سی تحریکوں کے لیے باعث ننگ و عار ہوتا ہے۔ کسی بھی معرکے میں یہاں تک کہ امریکہ اور صدام کے خلاف جنگ میں بھی انقلابِ اسلامی نے کبھی پہل نہیں کی بلکہ اِن تمام صورتوں میں دشمن کے حملوں کے بعد اپنا دفاع کیا ہے، البتہ دشمن کو منہ توڑ جواب ضرور دیا ہے۔ یہ انقلاب، آغاز سے آج تک نہ تو بے رحم اور خون ریز رہا اور نہ ہی متاثر اور متردّد ہوا۔ بَبانگ دہل پوری شجاعت کے ساتھ ستمگروں اور بدمعاشوں کے سامنے کھڑا رہا اور مظلوموں اور مستضعفین کا دفاع کرتا رہا ہے۔ یہ جوانمردی اور انقلابی مروّت، یہ صداقت، صراحت اور اقتدار، دنیا کے مظلوموں کی حمایت میں عالمی سطح اور خطّے کی سطح پر اقدامات، ایران اور ایرانی قوم کی سربلندی کا سرچشمہ ہیں اور مسلسل اسی طرح رہیں گے۔

آئندہ مضبوط اقدامات اٹھانے کے لیے ماضی کی درست شناخت ضروری ہے

اب جبکہ اسلامی جمہوریہ اپنی زندگی کی نئی بہار کا آغاز کر رہا ہے تو بندۂ ناچیز اپنے عزیز جوانوں اور اُس نسل سے کچھ کہنا چاہتا ہے جو میدانِ عمل میں قدم رکھ رہی ہے تا کہ اسلامی ایران کوعظیم تر بنانے کے لیے عظیم جہاد کے دوسرے حصے کا آغاز کرے۔ میری پہلی بات ماضی کے بارے میں ہے۔میرے عزیزو! اَنجانی چیزوں کو اپنے تجربے یا کسی تجربہ کار کی باتیں سُنے بغیر نہیں جانا جا سکتا۔ بہت سی ایسی چیزیں جو ہم دیکھ چکے ہیں یا جن سے گزر چکے ہیں وہ آپ کی نسل نے دیکھی ہیں اور نہ ہی وہ اُن کے تجربے سے گزری ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں اور آپ دیکھیں گے۔ آئندہ آنے والے عشرے آپ لوگوں کے عشرے ہیں۔ آپ ہی ہیں کہ جنہیں مہارت اور جوش و ولولے کے ساتھ اپنے انقلاب کی حفاظت کرنی ہے اور اُسے زیادہ سے زیادہ اُس کے عظیم ہدف یعنی نئے اسلامی تمدن کی تشکیل اور خورشیدِ ولایتِ عُظمیٰارواحنا فداہ کے طلوع کے لیے زمینہ سازی کے قریب تر کرنا ہے۔ مستقبل میں پائیدار قدم اٹھانے کے لیے ماضی کی درست شناخت اور تجربات سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر اِس حکمت عملی سے غفلت برتی گئی تو حقیقت کی جگہ جھوٹ لے لے گا اور مستقبل اَن دیکھے خطرات میں گھِر جائے گا۔ انقلاب کے دشمن ماضی و حال کے بارے میں تحریف اور جھوٹی تشہیر کا سہارا لینے پر مصمم ہیں اور اِس کام کے لیے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ فکر، آگہی اور عقیدوں پر ڈاکہ ڈالنے والے بے شمار ہیں۔ حقیقت کو دشمن اور اُس کے گماشتوں کی زبان سے نہیں سُنا جا سکتا۔

انقلاب اور اسلامی نظام کا نقطۂ صِفر سے آغاز

اسلامی انقلاب اور اُس کے نتیجے میں بننے والے نظام نے نقطۂ صفر سے اپنا آغاز کیا۔اوّلاً: سب کچھ ہمارے خلاف تھا؛ چاہے وہ طاغوت کی فاسد حکومت ہو، کہ جو نہ صرف فسادی، استبدادی، سازشی اور دوسروں کی پٹّھو تھی، بلکہ ایران میں پہلی شاہی ظالم حکومت تھی جو اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ دوسروں کی مدد سے تختِ حکومت تک پہنچی تھی، چاہے امریکہ اور دوسری مغربی حکومتیں ہوں، چاہے داخلی حالات کی شدید خرابی ہو یا چاہے وہ سائنس، ٹیکنالوجی، سیاست، روحانیت اور ہر فضیلت میں شرمناک حد تک پستی ہو۔ثانیاً: ہمارے سامنے اُس سے پہلے اِس طرح کا کوئی تجربہ اور طے شدہ راستہ نہیں تھا۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ مارکسی اور اُس طرح کے دوسرے انقلابات ایک ایسے انقلاب کے لیے قطعاً نمونہ نہیں بن سکتے تھے جس کے سوتے ایمان اور معرفت اسلامی سے پھوٹتے ہوں۔ اسلامی انقلابیوں نے بغیر کسی نمونے اور تجربے کے اپنے انقلاب کا آغاز کیا۔ جمہوریت اور اسلامیت کی ترکیب اور اُسے تشکیل دینے اور ترقّی دینے والے عناصر فقط اور فقط ہدایتِ الٰہی اور امام خمینیؒ جیسی شخصیت کے نورانی دل اور اُن کی عظیم فکر ہی کے نتیجے میں ہمارے ہاتھ آئے۔ یہ انقلاب کی پہلی تجلّی تھی۔

اسلام و استکبار کا نیا دوطرفہ تقابل

پس اُس وقت ملّتِ ایران کے انقلاب نے دو قطبی دنیا کو سہ قطبی دنیا میں بدل کر رکھ دیا۔ اُس کے بعد سوویت یونین کے زوال سے، اور طاقت کے نئے مراکز وجود میں آنے سے ’’اسلام اور استکبار‘‘ کا نیا دوطرفہ تقابل عہد حاضر کا سب سے اہم واقعہ اور اہلِ عالَم کی توجّہ کا مرکز و محور بن گیا۔ ایک طرف تو ظلم و ستم کی ماری اقوام، دنیا کی آزادی طلب تحریکیں اور خودمختاری کی طرف مائل بعض حکومتیں امید بھری نظروں سے اِس (انقلاب کو) دیکھنے لگیں، اور دوسری طرف دنیا کی ظالم و جابر اور قابض حکومتوں نے اپنی کینہ پرور اور بدخواہ نگاہیں اِس پر گاڑ لیں۔ اور یوں، دنیا کا راستہ ہی بدل گیا اور انقلاب کے زلزلے نے بسترِ راحت پر محوِ آسائش فرعونوں کو جگا کے رکھ دیا۔ دشمنی پوری شدّت سے شروع ہو گئی۔ اگر اِس قوم کی عظیم ایمانی طاقت، اِس قوم کے ولولے اور ہمارے عظیم الشان امامؒ کی آسمانی اور تائید شدہ رہبری نہ ہوتی تو اُن ساری دشمنیوں، شقاوتوں، سازشوں اور خباثتوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔

جہادی مدیریت اور ’’ہم کر سکتے ہیں‘‘ کے اصول پر ایمان؛ ہر میدان میں ایران کے وقار و ترقّی کا عامل

اُن تمام طاقت فرسا مشکلات کے برعکس، اسلامی جمہوریہ نے روز بروز مسلسل آگے کی طرف بڑا اور مضبوط قدم بڑھایا ہے۔ یہ چالیس سال، اسلامی ایران میں عظیم جہاد، درخشاں اعزازات اور حیران کُن ترقّی کے گواہ ہیں۔ ملّتِ ایران کی چالیس سالہ ترقّی کی عظمت کا صحیح اندازہ اُس وقت لگایا جا سکتا ہے جب اُس دورانیے کا موازنہ انقلابِ فرانس، سوویت یونین کے انقلابِ اکتوبر اور انقلابِ ہند جیسے دوسرے عظیم انقلابات کے دورانیے سے کیا جائے۔ اسلامی ایمان سے پھوٹنے والی جہادی مدیریت، اور ہمارے عظیم امامؒ کی جانب سے سکھائے گئے’’ہم کر سکتے ہیں‘‘ کے اصول پر ایمان نے ایران کو تمام میدانوں میں عزّت و ترقّی کی منازل تک پہنچایا ہے۔

اسلامی انقلاب کی عظیم برکات

انقلاب نے ایک طویل تاریخی انحطاط کا خاتمہ کیا۔ وہ ملک کہ پَہلَوی اور قاجار دورِ حکومت میں جس کی شدّت سے تحقیرہوتی رہی اور پسماندہ رہ گیا تھا، تیزی سے ترقّی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ پہلے قدم پر شرمناک آمرانہ سلطنت کو عوامی حکومت اور عوامی حاکمیت میں تبدیل کیا اور عوامی ارادہ، جو کہ ہمہ جہت اور حقیقی ترقّی کا اصل سرمایہ ہے، کو ملکی نظم و نسق میں شامل کیا۔ اُس وقت اُس نے جوانوں کے ہاتھ تمام حالات کی باگ دوڑ تھمائی اور اُنہیں انتظامی امور میں شریک کیا۔ ’’ہم کر سکتے ہیں‘‘ کی روح سب میں پھونک دی۔ دشمنوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کی برکت سے سب کو ملکی توانائی پر انحصار کرنا سکھایا اور یہ سب کچھ درج ذیل عظیم برکات کا باعث بنا:

 

  قارئین محترم متن بہت طولانی ہونے کے باعث ہم نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے،
حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

ٹیگس