پاکستان چین اقتصادی تعاون میں افغانستان کی شمولیت کے لئے پاکستان کی کوشش
اسلام آباد پاکستان چین اقتصادی تعاون کے منصوبے سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کے لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
شفقنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے علاقائی مواصلات و تعاون کو پاکستانی حکام اور افغانستان میں طالبان کے درمیان مذاکرات کا اہم محور قرار دیا۔
افغانستان میں پاکستان کے سفیر نے پاکستان چین اقتصادی تعاون کے منصوبے سی پیک کو میں افغانستان کی شمولیت، اقتصادی بنیاد کی مضبوطی اور افغانستان، پاکستان، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں توانائی کی منتقلی کا اہم ذریعہ قرار دیا۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کے موجودہ مسائل و مشکلات کا ذمہ دار ہندوستان کو قرار دیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں ہندوستان کے کردار کو تباہی کا باعث قرار دیا اور کہا کہ بقول ان کے ہندوستان کے اس کردار کے خاتمے کے بعد ہی افغانستان میں سیاسی مفاہمت و آشتی کا قیام عمل میں آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کو فوری طور پر مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں بیرونی مداخلت کے خلاف ہے اور اسلام آباد کابل کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔
شاہ محمود قریشی نے افغان پناہ گزینوں کی ہمسایہ ملکوں منجملہ پاکستان، ایران اور تاجیکستان میں بڑھتی تعداد کو باعث تشویش قرار دیا اور کہا کہ بحران افغانستان جاری رہنے سے دہشت گردی کو پنپنے کا موقع فراہم ہو گا۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ افغانستان سے دہشت گردی کی بنیادوں کو ختم کئے جانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے دس ارب ڈالر سے زائد کی رقم ریلیز کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک افغانستان کی حالیہ تبدیلی کے تعلق سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اکیلے افغان مسئلے کو حل نہیں کر سکتا اور یہ صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے۔
امریکہ دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکی فوج کے ساتھ پاکستان کے تعاون کے ماضی کے پیش نظر افغانستان کے مالی اثاثوں کو اپنے قبضے میں رکھ کر دو بنیادی مقاصد کے درپے ہے؛ پہلے یہ کہ وہ پاکستان کو سمجھانا چاہتا ہے کہ کسی بھی ملک میں اپنے قدم جمانا اور کسی بھی جنگجو گروہ کو اس ملک پر مسلط کرنا مالی ذرائع کی فراہمی کے بغیر ناممکن ہے اور امریکہ اسی کے ساتھ پاکستان کے اس کردار پر جو اس کی نظر میں، غیر شفاف اور امریکی مفاد کے خلاف ہے، اسلام آباد کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
امریکا کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کے ذریعے افغانستان میں طالبان کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانا چاہتا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ طالبان، پاکستان کے زیر اثر نہ رہیں بلکہ امریکی مفادات کی فراہمی اور تحفظ میں کام کریں اور امریکا اس کے بدلے طالبان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان پر بیس سال تک مسلط رہنے کے بعد امریکا کو ذلت و رسوائی کے ساتھ اس ملک سے نکلنا پڑا ہے جس کے بعد اس ملک پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ بیس سال قبل القاعدہ جیسے انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ گروہوں کو مٹانے کے بہانے ہی امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔