Dec ۲۹, ۲۰۱۶ ۱۵:۰۹ Asia/Tehran
  • قرآن مجید اورآئمہ اطہار (ع)  کی روایات میں اچھی گفتگو کی خصوصیات

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

ادب واحترام کا لحاظ کرنا پسندیدہ گفتگو اورمؤثررابطے کی برقراری کی پہلی شرط شمارہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف طعنہ دینا، بے ادبی اور بے حرمتی مخاطب کو نفسیاتی حالت میں مبتلا کردیتی ہے اوریہ امرحتی صحیح بات کے تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا باعث بنتاہے۔ اوربسا اوقات مخاطب کو مخاطب سے متنفراوراس کو مشتعل کرنے کا باعث بنتاہے ۔ بنا بریں حتی اگر فریق مقابل جہاں حرمت و ادب کے پاس ولحاظ کا پابند نہ بھی ہو وہاں بھی خود مخاطب کو ادب و حرمت کا پاس ولحاظ کرنا  ضروری ہے ۔

مثال کے طور پر قرآن مجید نے حضرت ابراہیم(ع) کی منطقی گفتگو کا ذکر کیا ہے جب انکے چچا ان کی توہین کرتے اورغصہّ میں ان پربگڑتے اور دھمکیاں دیتے اس وقت بھی حضرت ابراہیم(ع) حسن اخلاق اوراحترام وادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے ۔ سورۂ مریم کی سینتالیس ویں آیت میں خدا فرماتاہے کہ ابراہیم نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ پرسلام ہومیں اپنے پرور دگارسے آپ کے لئے بہت جلد طلب بخشش کروں گا اس لئے کہ وہ ہمیشہ مجھ پرمہربان رہتاہے۔

محمد وآل محمد علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت و حیات اس امر کی غماز ہے کہ یہ افراد بیان حقیقت اور تبلیغ دین کی راہ میں ہمیشہ اپنے مخاطب کا ادب واحترام ضروری سمجھتے تھے اوراس کا پاس ولحاظ رکھتے تھے ۔

 روایت میں ملتاہے کہ ایک روزحضرت امام جعفرصادق ‏(ع) کے ایک ممتازشاگرد جناب مفضّل نے ایک منکر خدا ابن ابی العوجاء سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنےشدید غصّہ کا اظہار کیا اور پھرغصہ میں اس کی سرزنش کی ۔ مفضل کی سخت  لہجہ میں گفتگو سن کر ابن ابی العوجاءنے کہا کہ آپ حضرت امام جعفرصادق (ع) کے اصحاب میں سے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہم سے کبھی اس لہجہ میں گفتگو نہیں کرتے۔ جو آپ نے میری کفرآمیز باتیں سنی ہیں اس سے کہیں زیادہ انھوں نے سنی ہیں لیکن کبھی انھوں نے سخت لہجہ اختیارنہیں کیا ۔انھوں نے ہمیشہ سنجیدگی ، متانت اور وقارکے ساتھ گفتگو کی اور کبھی بداخلاقی سے پیش نہیں آئے ۔ وہ پہلے میری باتوں کوغورسے سنتے ہیں اور میری دلیلیں درک کرتے ہیں میں بھی اپنے نظریات بھرپورطریقہ سے بیان کرتاہوں  جب میری باتیں مکمل ہوجاتی ہیں اورمیں سمجھنے لگتا ہوں کہ میں ان پرغالب آگیا ہوں اس وقت مختصرسی گفتگو میں وہ مجھ پرغالب آجاتے ہیں اور میری ساری دلیلیں کاٹ دیتے ہیں کہ میں ان کے سامنے لاجواب ہو جاتاہوں اگرآپ ان کے ساتھیوں اوراصحاب میں سے ہیں تو آپ ان کی طرح مجھ سے گفتگو کریں۔

اس روایت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت امام جعفرصادق (ع) اپنے مقابل فریق کی گفتگو غور سے سنتے تھے اوریہ فریق مقابل کا ادب واحترام کرنے کی دلیل ہے ۔ یہ امرفریق مقابل کے اعتماد کے حصول کا باعث بن سکتاہے۔چاہے مناظرے میں بعض باتوں کو رد کیا جانا ہے لیکن یہ امر فریق مقابل کی تحقیر و توہین کی اجازت نہیں دیتا ۔اگر ہم اپنی گفتگو میں سخت اور توہین آمیزلہجہ اختیارکریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنی بات کے اثبات کے لئے دلائل و برہان میں کمی واقع ہوگئی ہے ۔اور اپنی عقل وخرد سے استفادہ کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے جہاں گفتگو میں ادب و احترام کے اصول کا لحاظ نہ کیا جائے وہاں جہالت و ہٹ دھرمی رفتہ رفتہ منطق واستدلال  کی جگہ لے لیتی ہے اور حق کے اثبات کے لئے گفتگو کرنے والے افراد دوسروں کا وقت اور ان کے حقوق پامال کرنا شروع کردیتے ہیں۔

 

 

 

ٹیگس