قرآن کو سمجھنے کی ضرورت
تحریر: نوید تقوی
رمضان المبارک بہار قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں اکثر مسلمانوں کی توجہ قرآن مجید کی طرف ہوتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس آسمانی کتاب سے نزدیک ہوا جائے اور اس حوالے سے قرآن کے درس، تلاوت قرآن مجید کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
کیا قرآن کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں بس یہی ہیں کہ ہم قرآن کے درس میں شرکت اور اس آسمانی کتاب کی تلاوت کریں یقینا یہ عمل بھی اجر و ثواب کا باعث ہے اور ایک احسن عمل شمار کیا جاتا ہے اور اس کے اثرات بھی ہیں کہ جو انسان کی زندگیوں میں براہ راست پڑھتے ہیں، لیکن قرآن کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے قرآن کو ہم نے تنہا کردیاہے اور اس الہی آسمانی کتاب کو تنہائی سے نکالنے کے لئے ہمیں خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
اس مختصر سے تحریر میں ہم قرآنی تعلیمات کے حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات سے استعفادہ کرینگے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس ضمن میں فرماتے ہیں۔
" ہم قرآن سے دور ہیں؛ قرآن سے اجنبی ہیں؛ قرآنی مطالب کو نہیں جانتے؛ ضروری ہے کہ ایک کام کریں؛ اتنی زیاده کوشش کریں کہ قرآنی مفاهیم مسلمان ملتوں اور ملکوں پر عمومی طور پر حاکم آئیڈیولوجی کا حصہ بن جائیں!
آج پوری اسلامی دنیا میں قرآن کو سمجھنے اور اسے رواج دینے کے لئے انجام دیا جانے والا ہر کام، ان سب سے بڑی نیکیوں میں سے ایک ہے جن کا تصوّر کیا جا سکتا ہے ... اپنی نیتوں کو خدا کے لئے خالص کریں، نفسانی خواهشات اور دوسرے مختلف مقاصد سے پاک کریں تا کہ ان شاء الله یہ کام الله تعالی کی بارگاه میں مقبول قرار پائے"
رہبر انقلاب اسلامی کے ان فرامین سے نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسے کاموں کا اہتمام کرنا چاہیے کہ قرآنی تعلیمات کے اثرات معاشرے میں ہر سطح پر نظر آئیں، ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر توجہ صرف رمضان المبارک کے مہینے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ قرآنی تعلیمات کے اثرات سال کے تمام مہینوں میں اپنی خوشبو بکھیرتے ہوئے نظر آئیں۔
اس ضمن میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں۔
" قرآن کو لازمی طور پر سمجھنا چاہیے؛ ہم قران سے دور ہیں. دشمن ہماری قرآن سے اس دوری کا فائده اٹھا رہا ہے. دشمن روز بروز بےایمانی، لا پرواہی اور خود سے وابستگی کے افکار ہمارے ذہنوں میں ڈال رها ہے.
اسلامی حکومتوں پر ایک نظر ڈالیں، اسلامی ملکوں پر ایک نظر ڈالیں، امریکا، صیہونیت، دشمنوں اور ظالموں کے سامنے ان سب کی کیا حالت ہے! یہ سب قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے. ہم اگر قران سے نزدیک ہو جائیں، تو یہ سب شگاف پر ہو جائیں گے، سب کمزوریاں دور ہو جائیں گی، اسلامی شناخت کفریہ شناخت کے مقابلے میں نمایاں ہو جائے گی"
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں۔
"یہ جو ہم کہتے ہیں کہ"اگر ہم قرآن پر عمل کریں تو زندگی سنور جائے گی"، اس کا معنی یہ ہے۔
قرآنی معارف موجود ہیں، ضروری ہے کہ یہ معارف لوگوں کے درمیان عمومی ابحاث کا حصہ بن جائیں؛ اس قدر تکرار ہو، اس قدر اس کے بارے میں کام اور تحقیق ہو، اس قدر لکھا جائے،شعراء اور ادیب اس کے بارے میں اتنا زیاده تخلیقی کام کریں کہ یہ قرآنی معارف اسلامی معاشره کی واضح اور آشکار چیزوں میں سے ایک بن جائیں؛
یقیناً یہ کام ناممکن نہیں ہے اور پہنچ سے دور بھی نہیں؛ یہ نہ سوچیں کہ اگر ہم یہ کام کرنا چاہیں تو سو (100) سال لگ جائیں گے؛ نہیں! اگر ذوق و شوق اور ایمان رکھنے والے افراد ہمت کریں تو یہ کام بہت جلد امکان پذیر ہے؛ ضروری ہے کہ قرآن کے لئے اس طرح سے کام کیا جائے"
کسی بھی نیک کام سے پہلے اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کام میں کتنا وقت لگے گا بلکہ ہمیں کام کے صحیح ہونے اور نیک ہونے پر یقین رکھنا چاہیے اگر نیت صاف ہو اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا پختہ عزم کرلیا جائے تو خداوند متعال خود ایسے کاموں میں برکت ڈال دیتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں۔
آپ میں سے جو قرآن کا ذوق و شوق رکھتے ہیں اور قرآن کے حوالے سے امور کے سرپرست ہیں، اس کام کو نہ چھوڑیں! اس کام کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ انجام دیں! یہ نہ کہیں کہ چلو اب یہاں تک پہنچ گئے ہیں، بس کافی ہے؛ نہیں! قرآن کے بارے میں کام ختم ہونے والا نہیں ہے؛
ہمیں چاہیے کہ بہت زیاده کوشش کریں اور بہت زیاده کام کریں، سب کوشش کریں اور سب کام کریں تاکہ ہم قرآن سے مانوس ہو جائیں۔ ہمارے سارے خاندان، جوان اورعوام لازمی طور پر قرآن سے مانوس ہو جائیں۔
قرآن کو حفظ کرنا قرآن سے مانوس ہونے کاسبب بنتا ہے، جس کے بہت زیاده فائدے ہیں، یعنی یہی کہ یہ قرآن سے مانوس ہونا ان شاءالله ہمیں قرآنی معارف سے آشنائی عطا کرے گا۔