اولاد کیسے نیک ہو؟
ترتیب و تلخیص: آر اے ۔نقوی
اپنی اولاد کو خوش حال زندگی اور دنیا کی پریشانیوں سے نجات دلانے کا ایک اہم ذریعہ ہماری صالحیت اور نیک بختی ہے ۔ہرشخص کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد نیک اور فرماں بردار ہو لیکن صرف خواہش سے کچھ نہیں ہوتا اس کے لئے خود بھی نیک اور صالح بننے کی ضرورت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود جب رات میں نوافل ادا کر رہے ہوتے تو سامنے اپنے چھوٹے بچے کو سویا ہوا دیکھ کر کہاکرتے تھے "من اجلک یا بنی،، یہ تیرے روشن مستبقل کے لئے ہے اور روتے ہوئے ( وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا ) کی تلاوت کرتے۔
حضرت سعيد بن مسيّب كا بهي يہي حال تها، فرماتے :
" اني لأصلي فأذكر ولدي فأزيد في صلاتي." ( نماز پڑھتے ہوئے جب مجھے اپنے بچے یاد آتے ہیں تو نماز لمبی کر دیتا ہوں۔ )
سورہ کہف میں مذکور واقعے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ اس کی اولاد کو بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نبیل عوضہ کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست کویت میں ایک حکومتی ادارے میں اچھے منصب پر فائز ہے، وہ روزانہ چند گھنٹے فلاحی کاموں میں لگاتا ہے۔ میں نے کہا کہ تم اپنے کام میں زیادہ دل چسپی لو تو شاید تمہارا منصب اور مقام اور زیادہ ہوجائے گا ۔ کہنے لگا: ’’ تم جانتے ہو کہ میں چھے بچوں کا باپ ہوں جن میں بیٹے زیادہ ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائیں ۔ جب سے میں نے{ کَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا } کی تفسیر پڑھی ہے اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا ہے اور میں اس کے بہترین اثرات اپنے بیٹوں میں دیکھ رہا ہوں۔"